اسلام آباد —
پاکستان کو لاحق داخلی اور بیرونی خطرات کے پیش نظر کابینہ کی اعلیٰ ترین مشاورتی کمیٹی برائے دفاع کی تشکیل نو کی منظوری دے دی گئی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں جمعرات کو ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں اسے کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا نام دیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق اس کا مقصد قومی سلامتی کے امور پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔
کمیٹی کی قیادت وزیراعظم اور اراکین میں قومی سلامتی کے مشیر، وزرائے خزانہ، داخلہ و اطلاعات کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان شامل ہوں گے۔
11 مئی کے انتخابات کے بعد بننے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع کا یہ پہلا اجلاس تھا جس میں حکام کے مطابق متنازع کشمیر میں حد بندی لائن پر کشیدگی، افغانستان کی طرف سے پاکستان پر اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کے الزامات سے دو طرفہ تعلقات میں تناؤ اور ملک میں جاری دہشت گردی کے معاملات پر بات چیت کی گئی۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی نے ’’سخت الفاظ‘‘ میں بھارتی افواج کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے وہاں فائر بندی قائم کرنے پر زور دیا۔
کمیٹی میں ایک بار بھر اعادہ کیا گیا کہ پاکستان نا صرف افغانستان میں قیام امن کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں میں مدد کرے گا بلکہ دو طرفہ تعلقات کو بھی بڑھانے کے کیے اقدامات کیے جائیں گے۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کی تشکیل نو سے فوج اور حکومت کے درمیان قومی سلامتی کے امور سے متعلق بہتر رابطہ بنے گا جوکہ مربوط پالیسی کی تیاری میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
’’کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع ایک انسٹیٹیوشن نہیں۔ وہ ملتی ہے جب اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک ادارہ ہوگا اس کے ساتھ ایک سیکریٹریٹ ہوگا۔ ہمارے یہاں نظام کا فقدان تھا۔ وہ اس سے آجائے گا۔‘‘
وزیراعظم نے حال ہی میں قوم سے اپنے پہلے خطاب میں دہشت گردی کو ملک کا بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے پرامن حل کے لیے شدت پسندوں کو مذاکرت کی دعوت دی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ناکامی کی صورت میں طاقت کا استعمال بھی ممکن ہے۔
سینیٹ میں حزب اختلاف کے قائد اعتزاز احسن کا ایوان بالا کے اجلاس میں کہنا تھا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مضبوط انداز میں کھڑے ہوکر ان چیلنجوں کا مقابلہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کا بھرپور ساتھ دینے کو بھی تیار ہیں۔
’’دشمن تو اتر چکا ہے میدان میں۔ وہ تو جگہ جگہ وار کررہا ہے۔ ہم نہیں اترے۔ اس جنگ کے تین بڑے کردار ہیں۔ ریاست، دہشت گرد اور عوام۔ اگر ریاست دہشت گردوں سے مل گئی یا ان کے لیے نرم گوشہ رکھا یا کسی ایجنسی نے ان کا ساتھ دینے کی کوشش کی تو عوام ہار جائیں گے یعنی پاکستان ہار جائے گا۔‘‘
حکومت میں شامل عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دیرپا کامیابی کے لیے قومی سلامتی کی پالیسی کے اعلان کے علاوہ ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے سیاسی قائدین کا اجلاس بلایا جائے گا۔
وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں جمعرات کو ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں اسے کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا نام دیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق اس کا مقصد قومی سلامتی کے امور پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔
کمیٹی کی قیادت وزیراعظم اور اراکین میں قومی سلامتی کے مشیر، وزرائے خزانہ، داخلہ و اطلاعات کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان شامل ہوں گے۔
11 مئی کے انتخابات کے بعد بننے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع کا یہ پہلا اجلاس تھا جس میں حکام کے مطابق متنازع کشمیر میں حد بندی لائن پر کشیدگی، افغانستان کی طرف سے پاکستان پر اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کے الزامات سے دو طرفہ تعلقات میں تناؤ اور ملک میں جاری دہشت گردی کے معاملات پر بات چیت کی گئی۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی نے ’’سخت الفاظ‘‘ میں بھارتی افواج کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے وہاں فائر بندی قائم کرنے پر زور دیا۔
کمیٹی میں ایک بار بھر اعادہ کیا گیا کہ پاکستان نا صرف افغانستان میں قیام امن کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں میں مدد کرے گا بلکہ دو طرفہ تعلقات کو بھی بڑھانے کے کیے اقدامات کیے جائیں گے۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کی تشکیل نو سے فوج اور حکومت کے درمیان قومی سلامتی کے امور سے متعلق بہتر رابطہ بنے گا جوکہ مربوط پالیسی کی تیاری میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
’’کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع ایک انسٹیٹیوشن نہیں۔ وہ ملتی ہے جب اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک ادارہ ہوگا اس کے ساتھ ایک سیکریٹریٹ ہوگا۔ ہمارے یہاں نظام کا فقدان تھا۔ وہ اس سے آجائے گا۔‘‘
وزیراعظم نے حال ہی میں قوم سے اپنے پہلے خطاب میں دہشت گردی کو ملک کا بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے پرامن حل کے لیے شدت پسندوں کو مذاکرت کی دعوت دی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ناکامی کی صورت میں طاقت کا استعمال بھی ممکن ہے۔
سینیٹ میں حزب اختلاف کے قائد اعتزاز احسن کا ایوان بالا کے اجلاس میں کہنا تھا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مضبوط انداز میں کھڑے ہوکر ان چیلنجوں کا مقابلہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کا بھرپور ساتھ دینے کو بھی تیار ہیں۔
’’دشمن تو اتر چکا ہے میدان میں۔ وہ تو جگہ جگہ وار کررہا ہے۔ ہم نہیں اترے۔ اس جنگ کے تین بڑے کردار ہیں۔ ریاست، دہشت گرد اور عوام۔ اگر ریاست دہشت گردوں سے مل گئی یا ان کے لیے نرم گوشہ رکھا یا کسی ایجنسی نے ان کا ساتھ دینے کی کوشش کی تو عوام ہار جائیں گے یعنی پاکستان ہار جائے گا۔‘‘
حکومت میں شامل عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دیرپا کامیابی کے لیے قومی سلامتی کی پالیسی کے اعلان کے علاوہ ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے سیاسی قائدین کا اجلاس بلایا جائے گا۔