ذیابیطس یا شوگر ایک انتہائی خطرناک مرض ہے لیکن ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر سے نہ صرف اس پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے بچا بھی جاسکتا ہے۔
انسانی جسم میں پیدا ہونے والی انسولین کی مقدار کم ہوجانے سے شوگر کا مرض لاحق ہوتا ہے اورغیر صحت مندانہ طرز زندگی کے علاوہ غیر متوازن خوراک اس بیماری کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
کراچی میں قائم بقائی انسٹیٹوٹ آف ڈائبیٹالوجی اینڈ اینڈوکرنوجلی کے ڈاکٹر عصمت نواز کہتے ہیں کہ ذیابیطس سے متاثرہ شخص میں دیگر کئی جان لیوا بیماریوں کا بھی آسانی سے شکار ہو نے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ مرض گردوں کو ناکارہ کرنے کے علاوہ، بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے جب کہ بعض واقعات میں متاثرہ شخص بینائی سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
ڈاکڑ عصمت نواز نے بتایا کہ چند بنیادی احتیاطی تدابیر سے اس مرض سے بچاؤ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔’’صحت مند خوراک کا استعمال جس میں سبزیاں اور پھل زیادہ شامل ہوں، روزانہ کم ازکم 30 منٹ کی ورزش کو ضرور اپنی روز مرہ زندگی کا معمول بنائیں۔‘‘
طبی ماہرین عمومی طور پر یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ذیابیطس کا مرض نہ ہونے کی صورت میں بھی باقاعدگی سے اپنے خون کا تجزیہ کروانا چاہیے۔
ڈاکٹرعصمت نے بتایا ’’ اگر خالی پیٹ شوگر ٹیسٹ کرانے پر خون میں اس کی مقدار 100 ملی گرام سے 125 ملی گرام تک ہو اور کھانے کے دو گھنٹے بعد کے ٹیسٹ میں یہ 140 ملی گرام سے لے کر زیادہ سے زیادہ 200 ملی گرام ہو تو ایسے شخص کو ذیابیطس کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور انھیں احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان میں ذیابیطس کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ایک بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل ڈائیباٹیز فیڈریشن کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً 70 لاکھ لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں اور پاکستان ذیابیطس کے مرض کے حوالے سے دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ ماہرین کے محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کا مرض جس رفتار سے بڑھ رہا ہے اگر اس میں کمی نہ آئی تو آئندہ 14 سالوں میں اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد ایک کروڑ 15 لاکھ تک پہنچ جائے گی اور پاکستان کا شمار پہلے چار ممالک میں ہونے لگے گا۔
محتاط اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 36 کروڑ 60 لاکھ افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں اور ہر سال لگ بھگ 45 لاکھ سے زائد مریض موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔