پاکستان کے صدر ممنون حسین نے جسمانی طور پر معذور قیدی عبدالباسط کی سزائے موت پر عمل درآمد دو ماہ کے لیے روکنے کا حکم دیا ہے۔
صدر نے عبدالباسط کی جسمانی حالت سے متعلق تفتیش کا حکم بھی دیا۔
عبدالباسط کو جسمانی معذوری کے باوجود 25 نومبر کو پھانسی دی جانی تھی لیکن منگل کی شب دیر گئے صدر کے حکم کے بعد اُن کی سزا پر عمل درآمد ایک مرتبہ پھر موخر کر دیا گیا۔
دوسری مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ عین وقت پر عبدالباسط کی سزائے موت پر عمل درآمد کو روکا گیا ہو۔ رواں سال ستمبر میں عبدالباسط کی پھانسی پر عمل درآمد اُس وقت روکا گیا جب جیل انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا کہ موجودہ قوانین کے تحت اُن کو اس لیے پھانسی نہیں دی جا سکتی کیوں کہ ضوابط کے مطابق قیدی کا تختہ دار پر کھڑا ہونا لازم ہے۔
لیکن معذوری کے سبب عبدالباسط اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا، اس لیے ڈیوٹی مجسٹریٹ نے معذور افراد کو پھانسی دینے سے متعلق ہدایت مانگی تھیں۔
اس بارے میں تاحال نئی ہدایات نا ہونے کے سبب عبدالباسط کی پھانسی پر عمل درآمد روکا گیا۔
واضح رہے کہ مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے پاکستان سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عبدالباسط کی سزائے موت پر عمل درآمد کو روکا جائے۔
عبدالباسط کو ایک شخص کو قتل کرنے کے جرم میں 2009ء میں سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ جب سزا سنائی گئی تو اُس وقت وہ بالکل تندرست تھے لیکن بعد جیل میں عبدالباسط کو تپ دق کا مرض لاحق ہو گیا اور اس دوران اُن کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچا جس سے وہ جسمانی طور پر معذور ہو گئے اور اپنے پاؤں پر کھڑے بھی نہیں ہو سکتے۔
گزشتہ سال دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد پاکستان نے ملک میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزاؤں پر چھ سالہ غیر اعلانیہ پابندی ختم کر دی تھی۔
حکومت کی طرف سے ابتدا میں یہ کہا گیا کہ دہشت گردی کے جرائم میں سزا یافتہ مجرموں کی پھانسیوں پر عمل درآمد کیا جائے گا لیکن بعد قتل اور دیگر سنگین مقدمات میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی سزاؤں پر بھی عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ سال سے اب تک پاکستان میں 299 قیدیوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے حکومت سے سزائے موت کے قیدیوں کی سزاؤں پر عمل درآمد روکنے کے مطالبات بھی کیے جاتے رہے۔
لیکن پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ملک کو اس وقت غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جن سے نمٹنےکے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستانی عہدیداروں کا موقف ہے کہ تمام قانونی تقاضے مکمل کیے جانے کے بعد ہی ایسی سزائیں سنائی جاتی ہیں اور اس دوران ملزمان کو صفائی کا مکمل موقع دیا جاتا ہے۔