رسائی کے لنکس

ڈرون حملوں میں جنگجو کمانڈروں سمیت 15 ہلاک


پاکستان کے شورش زدہ قبائلی علاقے وزیرستان میں منگل کو دو مختلف مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں 15 شدت پسند مارے گئے۔

انتظامیہ اور انٹیلی جنس ذرائع نے بتایا کہ بغیر ہوا باز کے پرواز کرنے والے طیاروں سے داغے گئے میزائلوں کا ہدف شدت پسندوں کے زیر استعمال گاڑیاں تھیں۔

پہلا حملہ منگل کی دوپہر جنوبی وزیرستان کے دور افتادہ پہاڑی علاقے برمل میں کیا گیا جس میں مقامی طالبان کمانڈر مولوی نذیر کے گروہ سے منسلک آٹھ جنگجو مارے گئے۔

ہلاک ہونے والوں میں سے دو کی شناخت امیر حمزہ اور شمس اللہ کے ناموں سے کی گئی ہے جو تشدد کی کارروائی کی منصوبہ بندی اور نگرانی کیا کرتے تھے۔

اس حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی شمالی وزیرستان کے علاقے سرا خورہ میں ہونے والے ڈرون حملے میں سات شدت پسند ہلاک ہو گئے۔

امریکی صدر براک اوباما نے رواں سال کے اوائل میں پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر تصدیق کی تھی کہ اُن کا ملک پاکستان کی حدود میں موجود شدت پسندوں پر ڈرون حملے کر رہا ہے۔

پاکستان کی شورش زدہ قبائلی پٹی میں عسکریت پسندوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ 2004ء میں شروع ہوا تھا اور اطلاعات کے مطابق اب تک 300 سے زائد حملے کیے جا چکے ہیں۔

امریکی عہدیدار ڈرون حملوں کو انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا اہم جز قرار دیتے ہیں لیکن ان میں بے گناہ لوگوں کی مبینہ ہلاکت پر اُنھیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کا موقف ہے کہ یہ حملے غیر قانونی اور اُس کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں، جب کہ ان میں ہونے والی شہری ہلاکتیں ملک میں امریکہ مخلاف جذبات کو ہوا دینے کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف خود پاکستان کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔

اُدھر منگل ہی کی دوپہر شمالی وزیرستان میں مقامی انتظامیہ اور قبائلی عمائدین کے ایک اجلاس میں موجود مسلح شخص نے اچانک حملہ کر کے اعلیٰ سرکاری عہدیدار سمیت تین افراد کو ہلاک کر دیا۔

مقامی ذرائع نے بتایا کہ افغان سرحد سے ملحقہ اس شورش زدہ قبائلی علاقے کے دوسرے بڑے شہر میرعلی میں قائم ’اسکاؤٹس قلعہ‘ میں ہونے والے اجلاس میں اُتمان زئی اور داوڑ قبائل کی بجلی کی ترسیل سے متعلق شکایات سنی جا رہی تھیں کہ مسلح شخص نے معاون پولیٹیکل ایجنٹ عظمت جمال خٹک پر پہلے پستول سے فائرنگ کی اور پھر اُن کی جانب دو دستی بم بھی پھینکے۔

عظمت جمال کو شدید زخمی حالت میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بنوں منتقل کیا جا رہا تھا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے دیگر دو افراد کا تعلق مقامی خاصادار فورس سے بتایا گیا ہے۔

حملہ آور سے متعلق کوئی مصدقہ اطلاعات منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔

میاں افتخار حسین
میاں افتخار حسین

اُدھر پشاور میں منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختون خواہ کے وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین نے ایک بار پھر کہا ہے کہ حکومت شدت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، مگر اس کی حمایت کرنے کی بجائے اُنھوں نے اپنی اہمیت بڑھانے کی خاطر تخریبی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

صوبائی وزیر کے بقول نئی سرکاری پالیسی کے تحت انسداد دہشت گردی کے آپریشن قبائلی اور بندوبستی دونوں علاقوں میں کیے جائیں گے۔

اُنھوں نے کہا پاکستان، افغانستان اور امریکہ کی مشترکہ حکمت عملی سے ہی خطے سے انتہا پسندی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG