پاکستان کی وفاقی کابینہ نے دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت سے متعلق مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جسے بحث اور قانون سازی کے لیے پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اس مجوزہ قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں آباد پاکستانی تارکین وطن سرکاری عہدوں پر منتخب ہو سکتے ہیں۔
’’اب اس (مسودہ) پر پارلیمان میں بحث ہو گی، لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی جو دیگر ممالک میں ہیں ان کے بارے میں ہمارے منشور میں تھا کہ انھیں ووٹ کا حق بھی دیں اور نمائندگی کا حق کا بھی دیا جائے گا‘‘۔
قمرزمان کائرہ نے کہا کہ سرکاری عہدیدار بشمول ججوں پر یہ پابندی نہیں کہ وہ پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں رکھ سکتے اس لیے کابینہ نے یہ حق اراکین پارلیمان کو بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’پاکستان کا دنیا کے 16 ممالک کے ساتھ دہری شہریت پر ایگریمنٹ (معاہدہ) ہے۔ جس میں امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے باقی ممالک بھی شامل ہیں۔ اور وہ ممالک آپ کے شہری کو جب شہریت دیتے ہیں تو اس کو اپنے (ملک میں) الیکشن لڑنے کے عمل سے باہر نہیں کرتے‘‘۔
کابینہ نے دوہری شہریت کے مسودہ قانون کی منظوری ایسے وقت دی ہے جب سپریم کورٹ میں دہری شہریت کے حامل اراکین پارلیمان کے خلاف درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو مقدمے کی سماعت کے دوران بھی ایسے مزید دو قانون سازوں کی رکنیت معطل کر دی جو دہری شہریت رکھتے ہیں۔ جن قانون سازوں کی رکنیت معطل کی گئی ہے ان میں رکن قومی اسمبلی فرحت محمد خان اور سندھ اسمبلی کی رکن نادیہ گبول شامل ہیں، ان دونوں کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے۔
عدالت عظمٰی اب تک دوہری شہریت کے حامل قومی اسمبلی کے چار، سینیٹ کے ایک اور صوبائی اسمبلیوں کے چار اراکین کی رکنیت معطل کر چکی ہے، ان میں سے اکثریت کا تعلق حکمران پیپلز پارٹی ہے۔
جن اراکین پارلیمان کی رکنیت معطل کی گئی ہے ان میں سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور صدر زرداری کی میڈیا کوارڈینیٹر فرح ناز اصفہانی بھی شامل ہیں۔
سینیٹ کی رکنیت کی معطلی کے بعد رحمٰن ملک کو وزیراعظم کا مشیر برائے داخلہ امور بنا دیا گیا، لیکن سپریم کورٹ نے بدھ کو رحمٰن ملک سے وضاحت طلب کی ہے کہ وہ کس حیثیت میں یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
دریں اثناء بدھ کو وفاقی کابینہ نے توہین عدالت کے قانون میں ترامیم کے بل کی بھی منظوری دی جسے پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ توہین عدالت کے قانون میں ترامیم کے بل میں ایسی کوئی نئی تجویز شامل نہیں کی گئی ہے بلکہ اس قانون میں پائے جانے والے ابہام کو دور کرنے کے لیے یہ ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
’’ہم نے اس میں کوئی نئی چیز شامل نہیں کی، صرف اس میں دو چیزیں ہیں جو ضروری ہیں۔ ایک تو اپیل کا حق ہے۔۔۔ دوسرا یہ کہ (توہین عدالت کے ) فیصلے کے خلاف جب اپیل سماعت کے لیے منظور کر لی جائے تو حتمی فیصلے تک پہلے آرڈر کو معطل کر دیا جائے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ آئین کی شق 248 (1) کے تحت وزیراعظم، وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، وزرائے اعلیٰ اور صوبائی وزیروں کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ سرکاری ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے وہ جو فیصلے کرتے ہیں ان سے اس کی جواب طلبی نہیں کی جا سکتی۔
’’ترمیمی بل میں کہا گیا کہ اب ایسے فیصلے بھی توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئیں گے ‘‘۔
وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ دوہری شہریت سے متعلق قانون سازی اور توہین عدالت کے قانون میں ترامیم کے بل کا مقصد عدلیہ سے محاذ آرائی ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اس مجوزہ قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں آباد پاکستانی تارکین وطن سرکاری عہدوں پر منتخب ہو سکتے ہیں۔
’’اب اس (مسودہ) پر پارلیمان میں بحث ہو گی، لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی جو دیگر ممالک میں ہیں ان کے بارے میں ہمارے منشور میں تھا کہ انھیں ووٹ کا حق بھی دیں اور نمائندگی کا حق کا بھی دیا جائے گا‘‘۔
قمرزمان کائرہ نے کہا کہ سرکاری عہدیدار بشمول ججوں پر یہ پابندی نہیں کہ وہ پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں رکھ سکتے اس لیے کابینہ نے یہ حق اراکین پارلیمان کو بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’پاکستان کا دنیا کے 16 ممالک کے ساتھ دہری شہریت پر ایگریمنٹ (معاہدہ) ہے۔ جس میں امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے باقی ممالک بھی شامل ہیں۔ اور وہ ممالک آپ کے شہری کو جب شہریت دیتے ہیں تو اس کو اپنے (ملک میں) الیکشن لڑنے کے عمل سے باہر نہیں کرتے‘‘۔
کابینہ نے دوہری شہریت کے مسودہ قانون کی منظوری ایسے وقت دی ہے جب سپریم کورٹ میں دہری شہریت کے حامل اراکین پارلیمان کے خلاف درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو مقدمے کی سماعت کے دوران بھی ایسے مزید دو قانون سازوں کی رکنیت معطل کر دی جو دہری شہریت رکھتے ہیں۔ جن قانون سازوں کی رکنیت معطل کی گئی ہے ان میں رکن قومی اسمبلی فرحت محمد خان اور سندھ اسمبلی کی رکن نادیہ گبول شامل ہیں، ان دونوں کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے۔
عدالت عظمٰی اب تک دوہری شہریت کے حامل قومی اسمبلی کے چار، سینیٹ کے ایک اور صوبائی اسمبلیوں کے چار اراکین کی رکنیت معطل کر چکی ہے، ان میں سے اکثریت کا تعلق حکمران پیپلز پارٹی ہے۔
جن اراکین پارلیمان کی رکنیت معطل کی گئی ہے ان میں سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور صدر زرداری کی میڈیا کوارڈینیٹر فرح ناز اصفہانی بھی شامل ہیں۔
سینیٹ کی رکنیت کی معطلی کے بعد رحمٰن ملک کو وزیراعظم کا مشیر برائے داخلہ امور بنا دیا گیا، لیکن سپریم کورٹ نے بدھ کو رحمٰن ملک سے وضاحت طلب کی ہے کہ وہ کس حیثیت میں یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
دریں اثناء بدھ کو وفاقی کابینہ نے توہین عدالت کے قانون میں ترامیم کے بل کی بھی منظوری دی جسے پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ توہین عدالت کے قانون میں ترامیم کے بل میں ایسی کوئی نئی تجویز شامل نہیں کی گئی ہے بلکہ اس قانون میں پائے جانے والے ابہام کو دور کرنے کے لیے یہ ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
’’ہم نے اس میں کوئی نئی چیز شامل نہیں کی، صرف اس میں دو چیزیں ہیں جو ضروری ہیں۔ ایک تو اپیل کا حق ہے۔۔۔ دوسرا یہ کہ (توہین عدالت کے ) فیصلے کے خلاف جب اپیل سماعت کے لیے منظور کر لی جائے تو حتمی فیصلے تک پہلے آرڈر کو معطل کر دیا جائے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ آئین کی شق 248 (1) کے تحت وزیراعظم، وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، وزرائے اعلیٰ اور صوبائی وزیروں کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ سرکاری ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے وہ جو فیصلے کرتے ہیں ان سے اس کی جواب طلبی نہیں کی جا سکتی۔
’’ترمیمی بل میں کہا گیا کہ اب ایسے فیصلے بھی توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئیں گے ‘‘۔
وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ دوہری شہریت سے متعلق قانون سازی اور توہین عدالت کے قانون میں ترامیم کے بل کا مقصد عدلیہ سے محاذ آرائی ہے۔