واشنگٹن —
پاکستان کی چائلڈ ایکٹوسٹ ملالہ یوسف زئی پر رواں ہفتے ہونے والے حملے کی خبر کو دنیا بھر میں تشویش سے سنا گیا اور ہر جانب سے اس کی مذمت کی گئی۔
ملالہ پر حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ ملالہ کی "مغرب پسندی" اور طالبان پر تنقید کے باعث اسے نشانہ بنایا گیا۔
بعض ملکی و غیر ملکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو درپیش معاشی مشکلات اور کمزور قومی اداروں نے شدت پسندوں کو اندرونِ ملک کھل کر کھیلنے اور نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔
'انٹرنیشنل کرائسس گروپ' کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جاری اندرونی کشیدگیوں، سیلاب سے پیدا ہونے والی مشکلات، حکومت کی نااہلی اور ملکی و بین الاقوامی امدادی اداروں کی سرگرمیوں پر عائد قدغنوں کے باعث پاکستان میں بحران کی سی کیفیت جنم لے رہی ہے۔
ادارے سے وابستہ مبصر ثمینہ احمد کا کہنا ہے کہ انتہا پسند اسلامی جماعتیں پاکستانیوں کو درپیش معاشی مشکلات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والے غصے اور انتقامی جذبات کا فائدہ اٹھا کر اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ اور نئے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہیں ۔
ثمینہ احمد کے بقول پاکستان کی سول حکومت نے کچھ کارکردگی دکھائی ہے لیکن اب بھی ریاست اپنے عوام کی تمام تر ضروریات پوری نہیں کر پارہی۔ان کے مطابق حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی دہشت گرد تنظیمیں نام بدل کر پاکستان کے کئی علاقوں میں اب بھی سرگرم ہیں۔
ان کے بقول، "لشکرِ طیبہ نے اپنا نام بدل کر جماعت الدعوۃ رکھ لیا ہے اور یہ جماعت ان علاقوں میں خاصی متحرک ہے جہاں کے لوگوں کو مدد اور اعانت کی سخت ضرورت ہے۔ یہ تنظیم ان لوگوں کی ضروریات پورا کرکے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتی ہے"۔
ثمینہ احمد سمجھتی ہیں کہ جب تک ان تنظیموں کے خلاف قانون کو موثر طور پر حرکت میں نہیں لایا جاتا، یہ تنظیمیں مزید خطرہ بنتی جائیں گی۔
پاکستانی پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کی سربراہ پلوشہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو کئی چیلجنز درپیش ہیں جن سے نبٹنے کی وہ ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
ان کےبقول دہشت گردوں کےخلاف جنگ میں پاکستان اپنے سیکڑوں سپاہی اور ہزاروں عام شہری کھو چکا ہے اور پورا ملک اس جنگ کے نتائج سے نبرد آزما ہونے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
ملالہ پر حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ ملالہ کی "مغرب پسندی" اور طالبان پر تنقید کے باعث اسے نشانہ بنایا گیا۔
بعض ملکی و غیر ملکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو درپیش معاشی مشکلات اور کمزور قومی اداروں نے شدت پسندوں کو اندرونِ ملک کھل کر کھیلنے اور نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔
'انٹرنیشنل کرائسس گروپ' کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جاری اندرونی کشیدگیوں، سیلاب سے پیدا ہونے والی مشکلات، حکومت کی نااہلی اور ملکی و بین الاقوامی امدادی اداروں کی سرگرمیوں پر عائد قدغنوں کے باعث پاکستان میں بحران کی سی کیفیت جنم لے رہی ہے۔
ادارے سے وابستہ مبصر ثمینہ احمد کا کہنا ہے کہ انتہا پسند اسلامی جماعتیں پاکستانیوں کو درپیش معاشی مشکلات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والے غصے اور انتقامی جذبات کا فائدہ اٹھا کر اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ اور نئے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہیں ۔
ثمینہ احمد کے بقول پاکستان کی سول حکومت نے کچھ کارکردگی دکھائی ہے لیکن اب بھی ریاست اپنے عوام کی تمام تر ضروریات پوری نہیں کر پارہی۔ان کے مطابق حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی دہشت گرد تنظیمیں نام بدل کر پاکستان کے کئی علاقوں میں اب بھی سرگرم ہیں۔
ان کے بقول، "لشکرِ طیبہ نے اپنا نام بدل کر جماعت الدعوۃ رکھ لیا ہے اور یہ جماعت ان علاقوں میں خاصی متحرک ہے جہاں کے لوگوں کو مدد اور اعانت کی سخت ضرورت ہے۔ یہ تنظیم ان لوگوں کی ضروریات پورا کرکے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتی ہے"۔
ثمینہ احمد سمجھتی ہیں کہ جب تک ان تنظیموں کے خلاف قانون کو موثر طور پر حرکت میں نہیں لایا جاتا، یہ تنظیمیں مزید خطرہ بنتی جائیں گی۔
پاکستانی پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کی سربراہ پلوشہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو کئی چیلجنز درپیش ہیں جن سے نبٹنے کی وہ ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
ان کےبقول دہشت گردوں کےخلاف جنگ میں پاکستان اپنے سیکڑوں سپاہی اور ہزاروں عام شہری کھو چکا ہے اور پورا ملک اس جنگ کے نتائج سے نبرد آزما ہونے کی جدوجہد کر رہا ہے۔