اسلام آباد —
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں ملک کی معیشت میں بہتری آئی ہے اور بجٹ خسارہ اور برآمدات سمیت صنعتی پیداوار، ترسیلات زر اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی طور پر بہتری آئی ہے۔
اسلام آباد میں صحافیوں کو معیشت سے متعلق اعدادوشمار بتاتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی صورت میں نواز شریف انتظامیہ تمام تر مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
’’توانائی اور معیشت کی صورتحال کنٹرول میں ہے اور میرا خیال ہے کہ آج کل وزیراعظم میاں نواز شریف سکیورٹی، دہشت گردی (کے حل کی کوششوں) پر وقت صرف کررہے ہیں۔ اگر کوئی دوسرا راستہ نا ہوا تو (آپریشن کے لیے) فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ مذاکرات کو یہ آخری موقع دیا جارہا ہے اگر ہوگیا تو ٹھیک ہے۔‘‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر مجموعی طور پر 9 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئے ہیں جبکہ آئندہ چند روز میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے 55 کروڑ ڈالرز اور امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 40 کروڑ ڈالرز آئندہ ماہ کے اوائل میں موصول ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں برآمدات کا حجم تقریباً 17 ارب ڈالرز اور ترسیلات زر 10 ارب ڈالرز سے بھی بڑھ گئیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کے طے کردہ ہدف کے مطابق رواں سال کے اواخر تک زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گے۔
’’ڈالر سمیت بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں آج اس سطح پر آگئی ہیں جب ہم نے حکومت سنبھالی تھی۔ قطاریں لگی ہوئی ہیں اور جو لوگ ایک لاکھ روپے بھی ڈالر میں تبدیل کرکے رکھ رہے تھے اب بیچ رہے ہیں۔‘‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں اضافے سے عوام کو فوری طور پر فائدہ نہیں ہوگا مگر اس سے ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں تبدیلی کے عمل میں حکومت یا اسٹیٹ بنک نے کوئی مداخلت نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 1.5 ارب ڈالرز پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ میں ایک ’’اسلامی ملک‘‘ کی طرف سے آئے ہیں۔ وزیر نے ملک کا نام بتانے سے گریز کیا تاہم بعض مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق سعودی عرب نے مختلف ترقیاتی اور توانائی کے منصوبوں کے لیے یہ رقم فراہم کی ہے۔
تاہم ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن اس بات سے متفق نہیں کہ ڈالر کی قدر میں کمی کسی مداخلت کے بغیر ہوئی۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اتنی تیزی سے تبدیلی ’’معیشت کے رائج اصولوں کے منافی‘‘ ہے۔
’’کیا 1.5 ارب ڈالرز سے 10 روپے فی ڈالر کمی ہوگی؟ بہت بڑے پیمانے پر مداخلت ہوئی ہے۔ کوئی چھوٹے پیمانے پر نہیں ہوئی۔ 10 روپے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ دنیا میں ایکسچینج ریٹ میں چند پیسوں کی تبدیلی آتی ہے۔ کوئی چیز جھٹکے سے خراب ہو تو وہ دیرپا نہیں ہوتی۔‘‘
پاکستان کی معیشت میں جلد بہتری اور دیرپا استحکام کے لیے حکومت کو اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں تیزی سے اصلاحات کرنا ہوں گی۔
اسلام آباد میں صحافیوں کو معیشت سے متعلق اعدادوشمار بتاتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی صورت میں نواز شریف انتظامیہ تمام تر مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
’’توانائی اور معیشت کی صورتحال کنٹرول میں ہے اور میرا خیال ہے کہ آج کل وزیراعظم میاں نواز شریف سکیورٹی، دہشت گردی (کے حل کی کوششوں) پر وقت صرف کررہے ہیں۔ اگر کوئی دوسرا راستہ نا ہوا تو (آپریشن کے لیے) فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ مذاکرات کو یہ آخری موقع دیا جارہا ہے اگر ہوگیا تو ٹھیک ہے۔‘‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر مجموعی طور پر 9 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئے ہیں جبکہ آئندہ چند روز میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے 55 کروڑ ڈالرز اور امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 40 کروڑ ڈالرز آئندہ ماہ کے اوائل میں موصول ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں برآمدات کا حجم تقریباً 17 ارب ڈالرز اور ترسیلات زر 10 ارب ڈالرز سے بھی بڑھ گئیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کے طے کردہ ہدف کے مطابق رواں سال کے اواخر تک زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گے۔
’’ڈالر سمیت بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں آج اس سطح پر آگئی ہیں جب ہم نے حکومت سنبھالی تھی۔ قطاریں لگی ہوئی ہیں اور جو لوگ ایک لاکھ روپے بھی ڈالر میں تبدیل کرکے رکھ رہے تھے اب بیچ رہے ہیں۔‘‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں اضافے سے عوام کو فوری طور پر فائدہ نہیں ہوگا مگر اس سے ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں تبدیلی کے عمل میں حکومت یا اسٹیٹ بنک نے کوئی مداخلت نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 1.5 ارب ڈالرز پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ میں ایک ’’اسلامی ملک‘‘ کی طرف سے آئے ہیں۔ وزیر نے ملک کا نام بتانے سے گریز کیا تاہم بعض مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق سعودی عرب نے مختلف ترقیاتی اور توانائی کے منصوبوں کے لیے یہ رقم فراہم کی ہے۔
تاہم ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن اس بات سے متفق نہیں کہ ڈالر کی قدر میں کمی کسی مداخلت کے بغیر ہوئی۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اتنی تیزی سے تبدیلی ’’معیشت کے رائج اصولوں کے منافی‘‘ ہے۔
’’کیا 1.5 ارب ڈالرز سے 10 روپے فی ڈالر کمی ہوگی؟ بہت بڑے پیمانے پر مداخلت ہوئی ہے۔ کوئی چھوٹے پیمانے پر نہیں ہوئی۔ 10 روپے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ دنیا میں ایکسچینج ریٹ میں چند پیسوں کی تبدیلی آتی ہے۔ کوئی چیز جھٹکے سے خراب ہو تو وہ دیرپا نہیں ہوتی۔‘‘
پاکستان کی معیشت میں جلد بہتری اور دیرپا استحکام کے لیے حکومت کو اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں تیزی سے اصلاحات کرنا ہوں گی۔