پاکستان میں ایک ایسے وقت میں حکومت تبدیل ہوئی ہے جب ملک کی معیشت دباو کا شکار ہے اور نئی حکومت جس کے بارے میں ابھی یہ بھی طے نہیں کہ وہ کب تک دفتر میں رہنا چاہتی ہے اور کب ملک میں انتخابات کرانا چاہتی ہے، کیا وہ ایسے اقدامات کر سکتی ہے جو سابقہ حکومت سے مختلف ہوں اور معیشت کو درست راہ پر ڈال دیں۔
ماہرین معاشیات سمجھتے ہیں کہ ان اقدامات کا تعلق اس بات سے ہے کہ یہ حکومت کب تک رہنا چاہتی ہے اور کب انتخابات کرانا چاہتی ہے۔
اگر وہ بجٹ کے فورا بعد انتخابات کا اعلان کرتی ہے جو اکتوبر یا نومبر تک ہو سکتے ہیں، تو حکومت وہ مشکل فیصلے یقینًا نہیں کرے گی جو معیشت کی درستگی کےلیے ضروری لیکن عوام میں غیر مقبول ہوں کیونکہ سیاسی حکومت کی نظریں انتخابات اور ووٹوں پر ہوتی ہیں۔ لیکن اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کوئی سوا سال کی جو بقیہ مدت ہے وہ پوری کرےگی اور اس کے بعد انتخاب کرائے گی تو پھر وہ مشکل فیصلے بھی کرسکتی ہے جن کے مثبت نتائج کی اس وقت توقع کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا پاکستان کے ایک ممتاز ماہر معاشیات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مشکل فیصلے کیے بغیر معیشت کو درست کرنا ممکن نہ ہو گا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کا تجارتی خسارہ بہت بڑھ چکا ہے اور جو آج کی حکومت ہے جب گزشتہ بار اس کی مدت ختم ہوئی تھی اس وقت بھی یہ تجارتی خسارہ بہت زیادہ تھا۔ دو ہزار سترہ اٹھارہ میں یہ تجارتی خسارہ 19 ارب ڈالر تھا۔ اور اس سال بھی خیال یہی ہے کہ یہ خسارہ مزید بڑھے گا۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اس وقت اس خسارے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر برقرار رکھا گیا تھا اور اس بار کرونا کے بعد کے دور میں ساری دنیا میں قیمتیں بڑھی ہیں، افراط زر بڑھا ہے اور جو کچھ بحالی کی صورت نظر آئی تھی وہ بھی یوکرین کی جنگ کے سبب معدوم ہو گئی ہے۔
تاہم مسلم لیگ نون کی حکومت کے سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت نے معیشت کو بہتر حالت میں چھوڑا تھا جسے پی ٹی آئی کی حکومت نے اس حال پر پہنچایا اور یہ کہ وہ جانتے ہیں کہ غلطیاں کہاں ہوئیں اور وہ انہیں ٹھیک کر سکتے ہیں۔
اس وقت لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ نئی حکومت پچھلی حکومت سے مختلف کیا اقدامات کر سکتی ہے جن سےمعیشت بہتر ہو سکے اور عام آدمی تک بھی اس کے ثمرات پہنچ سکیں۔ کیا وہ مشکل فیصلے کرنے کےلیے تیا ر ہے؟
ڈاکٹر اشفاق حسن پاکستان کے سابق مشیر خزانہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو درآمدات میں بھاری کمی کرنی چاہئیے۔ اور انتہائ ضروری اشیاء کے علاوہ ہر چیز کی درآمد پر پابندی لگا دینی چاہئیے اس سے حکومت دس سے پندرہ ارب ڈالر تک کی بچت کر سکتی ہے۔
پھر بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے اخراجات کو اسی مقام پر منجمد کردیا جائے۔ جہاں سابقہ حکو مت نے چھوڑا تھا۔ اور فی الحال کوئی ترقیاتی منصوبہ بھی بجٹ میں شامل نہیں کیا جانا چاہئیے۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں اضافے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ لیکن بیشتر ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی فیصلہ ہے جس سے نہ تو مہنگائی کے بوجھ میں کمی ہو گی نہ لوگوں کو دیرپا ریلیف ملےگا، یہ بجٹ خسارے کو اور بھی بڑھا دے گا۔
نئی حکومت کو جون میں بجٹ بھی پیش کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ یہ ایسا بجٹ ہوگا جس کے بعد کوئی اور بجٹ آنے سے پہلے ممکنہ طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں جانا ہو گا۔ گویا اس بجٹ میں عام آدمی کو جتنی بھی سہولتیں ممکن ہوں، جتنی بھی رعائیتیں ممکن ہوں، وہ دی جائیں گی، تاکہ آنے والے انتخابات میں ان کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کی جا سکے۔ اس لیے مبصرین سمجھتے ہیں کہ آنے والے بجٹ کے نتیجے میں خساروں میں اور بھی اضافہ ممکن ہے اور فوری طور پر معیشت میں بہتری کی توقع کسی معجزے کی امید کی طرح ہوگی۔
پاکستان کی معاشی صورت حال کے حوالے سے اکثر ماہرین معاشیات اسٹیٹ بنک کے رول پر بھی تنقید کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ سابقہ حکومت کو اپنی اس کوشش کے باوجود کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جائے آخر کار اسی کے پاس جانا پڑا۔ پھر جو مزید اقدامات کیے گئے ان میں اسٹیٹ بینک کا رول زیادہ ہے جس نے روپے کی قدر تیس سے پینتیس فیصد گرادی اور شرح سود بڑھا دی، جو اس وقت سوا بارہ فیصد ہے۔ اس سے قرضوں پر سود کا بوجھ بہت بڑھ گیا اور ساتھ ہی ساتھ بجٹ کے خسارے میں بھی اضافہ ہوا۔
اسٹیٹ بنک اپنے اقدامات کا دفاع کرتا ہےاس کا موقف ہے کہ اس کا مقصد بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانا تھی، لیکن پھر کووڈ کی وباء اور عالمی معاشی سست روی کے سبب یہ مقصد حاصل نہ کیا جاسکا۔
پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں اور بقول ڈاکٹر پاشا فارن اکسچینج ریزرو میں صرف ایک ماہ کے دوران کوئی پانچ ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے ۔
اب نئی حکومت کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے، کیونکہ اگر اس سال انتخابات کرانے ہیں تو پھر حکومت آئی ایم ایف کے پاس بھی نہیں جانا چاہے گی۔ اس لیے کہ اسےآئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرنی پڑیں گی جس میں خاص طور پر پٹرول اور بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں جو سابقہ حکومت نے کم کردی تھیں ان میں بہت زیادہ اضافہ کرنا پڑے گا۔ ٹیکس کی وصولی بڑھانا پڑے گی اور الیکشن سے پہلے کوئی بھی سیاسی حکومت کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے کےلیے تیار نہیں ہو سکتی جو عوام میں غیر مقبول ہو اور اس کے الیکشن کے نتائج پر منفی اثر ڈالے۔
لیکن الیکشن کے بعد آنے والی نئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس جاسکتی ہے اور تین سالہ پروگرام میں شامل ہو سکتی ہے۔ اور اگلے انتخابات تک جو اصولی طور پر پانچ سال کے بعد ہونے چاہئیں مثبت نتائج بھی حاصل کر سکتی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ نئی حکومت جو مختلف الخیال جماعتوں کا ایک مجموعہ ہے وہ کونسے راستے کا انتخاب کرتی ہے۔