اسلام آباد —
پاکستان میں خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لیے حالیہ برسوں میں متعدد منصوبوں پر کام شروع کیا گیا ہے جن میں ’وسیلہ تعلیم‘ نامی ایک نئے منصوبے کے تحت اُن غریب خاندانوں کی مالی معاونت کی جائے گی جو اپنے بچوں کو اسکولوں میں تعلیم کے لیے بجھوائیں گے۔
بنیادی تعلیم کی فراہمی کے علاوہ اعلٰی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے ہزاروں طالب علموں کو حصول علم کے لیے بیرون ملک بجھوایا جن میں سے اب بیشتر واپس ملک آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے ایک ترجمان محمد مرتضیٰ نور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ سالوں کے دوران دس ہزار سے زائد پاکستانی طالب علموں کو پی ایچ ڈی کرنے کے لیے بیرون ملک یونیورسٹیوں میں بجھوایا گیا۔
اُنھوں نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے نوجوانوں پر کی جانے والی اس سرمایہ کاری کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور کامیابی سے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر کے واپس آنے والے مختلف قومی و نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
’’ ہمارے گیارہ سو ترانوے (1193) نئے پی ایچ ڈی اسکالرز کو مختلف اداروں اور یونیورسٹیوں میں ایک سال کی ملازمت دی گئی ہے اور ساتھ ہی انھیں ریسرچ گرانٹ بھی دی جا رہی ہے تاکہ ہمارے یہ نوجوان بہتر ماحول میں بہتر طور پر اپنے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں‘‘۔
محمد مرتضیٰ نور نے مزید کہا کہ پاکستانی طالبعلموں کی ملک سے باہر پی ایچ ڈی میں کامیابی اور وطن واپسی کی شرح 95 فیصد سے زیادہ ہے۔
’’ دنیا کی صف اول کی یونیورسٹیوں میں انھیں بھیجا گیا تھا اور یہ بڑی اہم بات ہے کہ انھوں نے وہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور اپنے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے اور یہاں آ کر بھی ترقی یافتہ ممالک میں حاصل کی ہوئی تعلیم و مہارت کو وہ پاکستان کے مختلف اداروں میں ان معاملات کی تحقیق میں استعمال کر رہے ہیں کہ جن کا تعلق ملک کی معاشرتی و معاشی ترقی سے ہے۔‘‘
حال ہی میں وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے کہا تھا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تحقیق پر مبنی تعلیم کی فراہمی پر زور دیا جائے اور اس کے لیے یونیورسٹیوں میں خصوصی شعبے بھی متعارف کرائے جائیں۔
ناقدین کا کہنا ہے اس وقت شعبہ تعلیم کے لیے سالانہ قومی بجٹ میں دو فیصد سے بھی کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور شرح خواندگی میں اضافے کے علاوہ اعلٰی تعلیمی اداروں میں تحقیق کے فروغ کے لیے مزید مالی وسائل مختص کرنا ہوں گے۔
بنیادی تعلیم کی فراہمی کے علاوہ اعلٰی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے ہزاروں طالب علموں کو حصول علم کے لیے بیرون ملک بجھوایا جن میں سے اب بیشتر واپس ملک آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے ایک ترجمان محمد مرتضیٰ نور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ سالوں کے دوران دس ہزار سے زائد پاکستانی طالب علموں کو پی ایچ ڈی کرنے کے لیے بیرون ملک یونیورسٹیوں میں بجھوایا گیا۔
اُنھوں نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے نوجوانوں پر کی جانے والی اس سرمایہ کاری کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور کامیابی سے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر کے واپس آنے والے مختلف قومی و نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
’’ ہمارے گیارہ سو ترانوے (1193) نئے پی ایچ ڈی اسکالرز کو مختلف اداروں اور یونیورسٹیوں میں ایک سال کی ملازمت دی گئی ہے اور ساتھ ہی انھیں ریسرچ گرانٹ بھی دی جا رہی ہے تاکہ ہمارے یہ نوجوان بہتر ماحول میں بہتر طور پر اپنے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں‘‘۔
محمد مرتضیٰ نور نے مزید کہا کہ پاکستانی طالبعلموں کی ملک سے باہر پی ایچ ڈی میں کامیابی اور وطن واپسی کی شرح 95 فیصد سے زیادہ ہے۔
’’ دنیا کی صف اول کی یونیورسٹیوں میں انھیں بھیجا گیا تھا اور یہ بڑی اہم بات ہے کہ انھوں نے وہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور اپنے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے اور یہاں آ کر بھی ترقی یافتہ ممالک میں حاصل کی ہوئی تعلیم و مہارت کو وہ پاکستان کے مختلف اداروں میں ان معاملات کی تحقیق میں استعمال کر رہے ہیں کہ جن کا تعلق ملک کی معاشرتی و معاشی ترقی سے ہے۔‘‘
حال ہی میں وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے کہا تھا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تحقیق پر مبنی تعلیم کی فراہمی پر زور دیا جائے اور اس کے لیے یونیورسٹیوں میں خصوصی شعبے بھی متعارف کرائے جائیں۔
ناقدین کا کہنا ہے اس وقت شعبہ تعلیم کے لیے سالانہ قومی بجٹ میں دو فیصد سے بھی کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور شرح خواندگی میں اضافے کے علاوہ اعلٰی تعلیمی اداروں میں تحقیق کے فروغ کے لیے مزید مالی وسائل مختص کرنا ہوں گے۔