اسلام آباد —
پاکستان کے اقتصادی مرکزی کراچی میں الیکشن کمیشن کی طرف سے نئی حلقہ بندیوں کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں اپنی درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کمیشن کو کراچی شہر میں آئندہ انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں کرنے سے روکا جائے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے وکیل فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کروانے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بھی خلاف ہے جس میں یہ عمل قانون کے تحت کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔
’’انتخابات کے شیڈول جاری ہونے کے بعد حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیاں 16 مارچ کو تحلیل ہوئی اور صدر نے چار روز بعد نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جبکہ الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن 22 مارچ کو آیا۔ اس لیے یہ نوٹیفیکیشن کالعدم ہے۔‘‘
الیکشن کمیشن نے کراچی میں قومی اسمبلی کے تین اور صوبائی اسمبلی کے آٹھ حلقوں کی نئی انتخابی حد بندیاں کرنے کی ہدایت جاری کر رکھی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی کی سب سے بااثر سیاسی جماعت ہے۔ ایم کیو ایم کے مرکزی سینیئر رہنما فاروق ستار کہتے ہیں کہ اس عمل کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے قوائد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نا تو فریقین سے تجاویز لی گئیں ہیں اور نا ہی اس بارے میں کوئی پہلے سے شیڈول جاری کیا گیا ہے۔
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کراچی والوں کو ایم کیو ایم کی حمایت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے اور یہ ہمارے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ ووٹروں کی فہرستوں کو آویزاں کرنے میں تاخیر بھی اسی فیصلے سے جڑا ہوا ہے۔‘‘
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے حامی اور کارکن ان حلقہ بندیوں کے خلاف پر امن احتجاج جاری رکھیں گے اور ان کے بقول اس غیر جمہوری عمل پر عمل در آمد نہیں ہونے دیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان سے رابطہ کرنے پر انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی۔
عدالت نے پیر کو ایم کیو ایم کے وکیل کے ابتدائی دلائل سن کر اٹارنی جنرل کے علاوہ، الیکشن کمیشن اور وفاق کے نمائندوں کو بدھ کو پیش ہونے کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
دوسری جانب ملک بھر میں الیکشن کمیشن کے دفاتر میں انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل شروع ہو چکا ہے جو کہ 29 مارچ تک جاری رہے گا اور اس کے بعد ایک ہفتے میں ان کاغذات کی جانچ پڑتال مکمل کی جائے گی۔
پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں اپنی درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کمیشن کو کراچی شہر میں آئندہ انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں کرنے سے روکا جائے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے وکیل فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کروانے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بھی خلاف ہے جس میں یہ عمل قانون کے تحت کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔
’’انتخابات کے شیڈول جاری ہونے کے بعد حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیاں 16 مارچ کو تحلیل ہوئی اور صدر نے چار روز بعد نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جبکہ الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن 22 مارچ کو آیا۔ اس لیے یہ نوٹیفیکیشن کالعدم ہے۔‘‘
الیکشن کمیشن نے کراچی میں قومی اسمبلی کے تین اور صوبائی اسمبلی کے آٹھ حلقوں کی نئی انتخابی حد بندیاں کرنے کی ہدایت جاری کر رکھی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی کی سب سے بااثر سیاسی جماعت ہے۔ ایم کیو ایم کے مرکزی سینیئر رہنما فاروق ستار کہتے ہیں کہ اس عمل کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے قوائد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نا تو فریقین سے تجاویز لی گئیں ہیں اور نا ہی اس بارے میں کوئی پہلے سے شیڈول جاری کیا گیا ہے۔
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کراچی والوں کو ایم کیو ایم کی حمایت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے اور یہ ہمارے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ ووٹروں کی فہرستوں کو آویزاں کرنے میں تاخیر بھی اسی فیصلے سے جڑا ہوا ہے۔‘‘
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے حامی اور کارکن ان حلقہ بندیوں کے خلاف پر امن احتجاج جاری رکھیں گے اور ان کے بقول اس غیر جمہوری عمل پر عمل در آمد نہیں ہونے دیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان سے رابطہ کرنے پر انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی۔
عدالت نے پیر کو ایم کیو ایم کے وکیل کے ابتدائی دلائل سن کر اٹارنی جنرل کے علاوہ، الیکشن کمیشن اور وفاق کے نمائندوں کو بدھ کو پیش ہونے کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
دوسری جانب ملک بھر میں الیکشن کمیشن کے دفاتر میں انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل شروع ہو چکا ہے جو کہ 29 مارچ تک جاری رہے گا اور اس کے بعد ایک ہفتے میں ان کاغذات کی جانچ پڑتال مکمل کی جائے گی۔