اسلام آباد —
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ رواں ماہ کی 29 تاریخ تک اسلام آباد میں کمیشن کے مرکزی دفتر میں اپنے مالی گوشوارے جمع کروائیں بصورت دیگر آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے انہیں انتخابی نشان جاری نہیں کیے جائیں گے۔
سیاسی جماعتوں سے متعلق قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ تمام جماعتوں کو ہر مالی سال کے اختتام کے 60 روز کے اندر ایک مستند کمپنی سے تصدیق شدہ گوشوارے کمیشن کو مہیا کرنا ہوتے ہیں۔ تاہم کمیشن کے ترجمان خورشید عالم خان کے مطابق 230 کے قریب جماعتوں میں سے بیشتر ایسا کرتی ہی نہیں۔
’’50 یا 60 (سیاسی جماعتیں) جو کرتی بھی ہیں تو بڑی مشکل سے۔ اس کی وجہ قانون میں نرمی ہے۔ اگر کوئی (انتخابات کے) آخری دن بھی جمع کر دیتا ہے تو اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے تو پھر جماعتیں اسے سنجیدگی سے لیتی ہی نہیں۔‘‘
انتخابی عمل سے متعلق تحقیقات کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اور فیئر الیکشن نیٹ ورک کے سربراہ مدثر رضوی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو گوشواروں میں موجود معلومات کی تصدیق کرنے کے اختیارات دیے جانے چاہیئں۔ جس سے ان کے بقول اس پورے عمل کو فائدہ مند بنایا جا سکتا ہے۔
’’پارٹیوں نے الیکشن میں الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات پر بے انتہا خرچہ کیا ہے۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ان گوشواروں میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن کا انہیں جمع کرنے کا تو اختیار ہے مگر جانچنے کا نہیں تو انتخابات سے باہر ہونے کے ڈر سے تو وہ جمع کرواتے ہیں مگر اس میں کیا کہتے ہیں اس پر کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔‘‘
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ترجمان صدیق الفاروق کے مطابق جمہوریت کا تسلسل زیادہ اہم ہے۔
’’دیکھیں پانچ سال جمہوریت کو ملے تو الیکشن کمیشن کے اختیارات کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ تو یہ اداروں کی بہتری ہے۔ تو زیادہ ضروری آئینی جمہوری نظام کا جاری رہنا ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ الیکشن کمیشن بھی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے لیے کوئی معیار طے کرے۔
’’پولیٹیکل پارٹیز میں لوگ اپنی یہ ذمہ داری نہیں سمجھتے (کہ گوشوارے جمع کروائیں)۔ دوسرا وہ عوام کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں تو اس کے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔ پھر 200 سے زائد کمیشن نے پارٹیاں رجسٹرڈ کی ہوئی ہیں اس کے لیے کوئی معیار ہی نہیں ہے بس پارٹیاں رجسٹرڈ ہورہی ہیں۔‘‘
ملک کے 42 حلقوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات 22 اگست کو ہونے جارہے ہیں اور اس دوران حساس مقامات پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن نے پاکستانی فوج سے معاونت طلب کی ہے۔
سیاسی جماعتوں سے متعلق قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ تمام جماعتوں کو ہر مالی سال کے اختتام کے 60 روز کے اندر ایک مستند کمپنی سے تصدیق شدہ گوشوارے کمیشن کو مہیا کرنا ہوتے ہیں۔ تاہم کمیشن کے ترجمان خورشید عالم خان کے مطابق 230 کے قریب جماعتوں میں سے بیشتر ایسا کرتی ہی نہیں۔
’’50 یا 60 (سیاسی جماعتیں) جو کرتی بھی ہیں تو بڑی مشکل سے۔ اس کی وجہ قانون میں نرمی ہے۔ اگر کوئی (انتخابات کے) آخری دن بھی جمع کر دیتا ہے تو اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے تو پھر جماعتیں اسے سنجیدگی سے لیتی ہی نہیں۔‘‘
انتخابی عمل سے متعلق تحقیقات کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اور فیئر الیکشن نیٹ ورک کے سربراہ مدثر رضوی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو گوشواروں میں موجود معلومات کی تصدیق کرنے کے اختیارات دیے جانے چاہیئں۔ جس سے ان کے بقول اس پورے عمل کو فائدہ مند بنایا جا سکتا ہے۔
’’پارٹیوں نے الیکشن میں الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات پر بے انتہا خرچہ کیا ہے۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ان گوشواروں میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن کا انہیں جمع کرنے کا تو اختیار ہے مگر جانچنے کا نہیں تو انتخابات سے باہر ہونے کے ڈر سے تو وہ جمع کرواتے ہیں مگر اس میں کیا کہتے ہیں اس پر کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔‘‘
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ترجمان صدیق الفاروق کے مطابق جمہوریت کا تسلسل زیادہ اہم ہے۔
’’دیکھیں پانچ سال جمہوریت کو ملے تو الیکشن کمیشن کے اختیارات کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ تو یہ اداروں کی بہتری ہے۔ تو زیادہ ضروری آئینی جمہوری نظام کا جاری رہنا ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ الیکشن کمیشن بھی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے لیے کوئی معیار طے کرے۔
’’پولیٹیکل پارٹیز میں لوگ اپنی یہ ذمہ داری نہیں سمجھتے (کہ گوشوارے جمع کروائیں)۔ دوسرا وہ عوام کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں تو اس کے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔ پھر 200 سے زائد کمیشن نے پارٹیاں رجسٹرڈ کی ہوئی ہیں اس کے لیے کوئی معیار ہی نہیں ہے بس پارٹیاں رجسٹرڈ ہورہی ہیں۔‘‘
ملک کے 42 حلقوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات 22 اگست کو ہونے جارہے ہیں اور اس دوران حساس مقامات پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن نے پاکستانی فوج سے معاونت طلب کی ہے۔