اسلام آباد —
سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی کارروائیاں ملک میں جاری انتخابی عمل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اس لیے نگراں حکومت کو ایک مربوط لائحہ عمل کے تحت سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کے لیے موثر حفاظتی اقدامات کرنا ہوں گے۔
اسلام آباد میں منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسا سازگار ماحول مہیا کرے جس کے تحت ہر جماعت کسی خوف و خطر کے بغیر عوام کے سامنے اپنے منشور کے مطابق ووٹ مانگ سکے۔
’’سیاست کے ایک حصے کو تو کھلی چھٹی جبکہ دوسرے کو بم دھماکوں کا سامنا تو پھر ایسا کوئی حل دیکھیں کہ سارے ٹی وی چینلز پر امیدوارورں کو بیٹھا دیں، جلسے جلوسوں پر مکمل پابندی لگا دیں۔ طالبان کی اپنے مخالف قوتوں کے خلاف دھمکی کے بارے حکومت کوئی اقدامات ضرور کرے۔‘‘
حکام انتخابات کے دوران عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں اور حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے سابق رکن اسمبلی پر اس وقت شدت پسندوں کی طرف سے حملہ کیا گیا جب وہ انتخابی مہم کے دوران اپنے علاقے جا رہے تھے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو انتظامیہ میں ان سرکاری حکام کو تبدیل کرنے کی ہدایت کی جو کہ کسی بھی صورت انتخابات میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کمیشن کی طرف سے جاری ایک نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے یہ ہدایت جاری کی گئی ہے۔
کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 13 ہزار سے زائد موصول ہونے والے کاغذات نامزدگی میں سے 8 ہزار کاغذات کی جانچ پڑتال مکمل کر لی ہے۔
’’ہم نے اسٹیٹ بنک، فیڈرل بیورو آف ریوینو اور قومی احتساب بیورو سے ہر ایک کے بارے میں معلومات حاصل کی اور کاغذات سے موازنہ کیا۔ اب ریٹرنگ آفیسرز اس معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کریں کہ وہ انتخابات لڑ سکتے ہیں یا نہیں۔‘‘
سپریم کورٹ کی ہدایت پر ملک کی مختلف ذیلی عدالتوں نے بھی میں جعلی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر انتخابات لڑنے اور دہری شہریت رکھنے والے سابق اراکین اسمبلییوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور منگل کو حال ہی میں تحلیل ہونے والی اسمبلیوں کے متعدد اراکین کو قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی ہیں۔
اسلام آباد میں منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسا سازگار ماحول مہیا کرے جس کے تحت ہر جماعت کسی خوف و خطر کے بغیر عوام کے سامنے اپنے منشور کے مطابق ووٹ مانگ سکے۔
’’سیاست کے ایک حصے کو تو کھلی چھٹی جبکہ دوسرے کو بم دھماکوں کا سامنا تو پھر ایسا کوئی حل دیکھیں کہ سارے ٹی وی چینلز پر امیدوارورں کو بیٹھا دیں، جلسے جلوسوں پر مکمل پابندی لگا دیں۔ طالبان کی اپنے مخالف قوتوں کے خلاف دھمکی کے بارے حکومت کوئی اقدامات ضرور کرے۔‘‘
حکام انتخابات کے دوران عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں اور حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے سابق رکن اسمبلی پر اس وقت شدت پسندوں کی طرف سے حملہ کیا گیا جب وہ انتخابی مہم کے دوران اپنے علاقے جا رہے تھے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو انتظامیہ میں ان سرکاری حکام کو تبدیل کرنے کی ہدایت کی جو کہ کسی بھی صورت انتخابات میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کمیشن کی طرف سے جاری ایک نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے یہ ہدایت جاری کی گئی ہے۔
کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 13 ہزار سے زائد موصول ہونے والے کاغذات نامزدگی میں سے 8 ہزار کاغذات کی جانچ پڑتال مکمل کر لی ہے۔
’’ہم نے اسٹیٹ بنک، فیڈرل بیورو آف ریوینو اور قومی احتساب بیورو سے ہر ایک کے بارے میں معلومات حاصل کی اور کاغذات سے موازنہ کیا۔ اب ریٹرنگ آفیسرز اس معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کریں کہ وہ انتخابات لڑ سکتے ہیں یا نہیں۔‘‘
سپریم کورٹ کی ہدایت پر ملک کی مختلف ذیلی عدالتوں نے بھی میں جعلی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر انتخابات لڑنے اور دہری شہریت رکھنے والے سابق اراکین اسمبلییوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور منگل کو حال ہی میں تحلیل ہونے والی اسمبلیوں کے متعدد اراکین کو قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی ہیں۔