پاکستان میں قومی اسمبلی کی خواتین اراکین نے صوبہ خیبر پختون خواہ کے ایک ضلع میں ضمنی انتخاب کے دوران خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نا دینے پر احتجاج کرتے ہوئے اس کے نتائج کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرنے والوں میں خیبر پختون خواہ میں حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی رکن بشریٰ گوہر پیش پیش تھیں۔
اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ ووٹ کا استعمال ہر پاکستانی عورت کا آئینی حق ہے۔ ’’اگر (خواتین کو) آئینی حق سے محروم کیا جائے تو کیا ایسے انتخابات کو جائز کہا جا سکتا ہے؟ میں نے اس ہی لیے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ اگر 10 فیصد خواتین بھی ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلیں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ اُنھیں روکا گیا ہے۔ ’’اس قسم کے انتخابات قابل قبول نہیں ہو سکتے، ان کو کالعدم قرار دینا چاہیئے۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پختون خواہ کے دور افتادہ اور پسماندہ ضلع کوہستان میں اہل خواتین ووٹروں کی مجموعی تعداد 18,000 ہے لیکن جمعرات کو وہاں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں محض تین خواتین نے پولنگ اسٹیشنز پر جا کر ووٹ ڈالے۔
سیاسی مبصرین بشریٰ گوہر کی طرف سے کی گئی کڑی تنقید کو خلاف توقع قرار دے رہے ہیں کیوں کہ کوہستان میں ہونے والے انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق فتح عوامی نیشنل پارٹی کے امید وار سجاد اللہ کی ہوئی ہے۔
بشریٰ گوہر کے موقف کی تائید مرکز میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے بھی کی ہے جس کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ کوہستان میں خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی جمہوری تقاضوں کے خلاف ہے۔’’ہم الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھیں گے اور پبلک کو بھی بتائیں گے کہ ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔‘‘
نفیسہ شاہ حقوق نسواں کے فروغ کے لیے پارلیمان کی خصوصی تنظیم یا Women’s Parliamentary Caucus کی سیکرٹری بھی ہیں۔
2008ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی صوبہ خیبر پختون خواہ کے بعض اضلاع میں امیدواروں کی باہمی رضا مندی کے بعد اُن کے حلقوں میں خواتین کو پولنگ اسٹیشنز جانے سے منع کر دیا گیا تھا جس پر جمہوریت کی حامی اور حقوق انسانی کی تنظیموں کی طرف سے کڑی تنقید کی گئی لیکن اس کے باوجود کوہستان کے ضمنی انتخابات میں ایک بار پھر یہ عمل دہرایا گیا ہے۔
دریں اثنا آئندہ انتخابات سے قبل ووٹروں کی نئی فہرستوں کی جلد از جلد تیاری کے مطالبات بھی زور پکڑتے جا رہے ہیں کیوں کہ پرانی فہرستوں میں 45 فیصد جعلی ووٹوں کی تصدیق کے بعد سیاسی مبصرین 2008ء کے انتخابات کے نتائج کے شفاف ہونے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نئی فہرستوں کی تیاریوں میں مصروف ہے جب کہ بعض سیاسی جماعتیں اس عمل کی رفتار تیز کرنے پر زور دے رہی ہیں۔
جمعرات کی شب قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے انتخابات وقت مقررہ پر اور شفاف انداز میں کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ان یقین دہانیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ ’’اگر آئندہ انتخابات شفاف نا ہوئے تو سڑکوں پر خون خرابہ ہو گا۔‘‘