اسلام آباد —
پاکستان میں وزیراعظم کے دفتر کو 62 لاکھ واجبات ادا نا کرنے پر بجلی کی ترسیل منقطع کر دی گئی ہے۔
یہ کارروائی وزیرمملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی کی منگل کو ذرائع ابلاغ میں گفتگو کے کچھ دیر کے بعد ہی کی گئی جس میں انہوں نے بتایا کہ پانی اور بجلی کے محکمے نے صوبوں اور سرکاری محکموں سے مجموعی طور پر 475 ارب روپے وصول کرنے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے برطانیہ کے دورے پر جانے سے پہلے انہیں ایک ماہ میں 33 ارب روپے وصول کرنے کا ٹارگٹ دیا ہے جو کہ ہر حال میں پورا کیا جائے گا۔
وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ایک عہدیدار نے بجلی کی ترسیل کے منقطع ہونے کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں بجلی کی ترسیل بدستور جاری ہے۔ ’’ان کی ادائیگی کا معاملہ بظاہر نہیں ہوگا۔ اس لئے وہاں بجلی ہے۔‘‘
عابد شیر علی نے کہا کہ قانون سازوں کی سرکاری رہائش گاہ یعنی پارلیمنٹ لاجز کی بجلی بھی منقطع کر دی گئی ہے جبکہ ایوان صدر، سپریم کورٹ کی بلڈنگ اور چیف جسٹس ہاؤس کے خلاف ایسی ہی کارروائی کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں وہاں دراصل سب سے زیادہ بجلی کی چوری ہو رہی تھی۔
’’جہاں نقصانات 90 فیصد تھے وہاں 20 سے 22 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے اور جہاں نقصانات کم ہیں وہاں کم۔ احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن کسی بھی گرڈ سٹیشن کو نقصان پہنچا تو اُس کی مرمت وفاقی حکومت نہیں کرے گی۔"
وزیر مملکت کے بقول اس وقت بجلی کی رسد اور طلب میں فرق پانچ ہزار میگاواٹ سے تجاوز ہوچکا ہے۔
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور اقتدار سنبھالتے ہی نواز انتظامیہ نے گزشتہ سال بجلی کی پیداواری کمپنیوں اور تیل فراہم کرنے والے اداروں کو زیر گردش قرضوں کی مد میں پانچ سو ارب روپے سے زائد ادا کیے اور سرکاری حکام کے مطابق اس قرضے کے حجم میں ایک بار پھر تقریباً اتنا ہی اضافہ ہوگیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے رکن محسن خان لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی اس مہم کا یہ وقت درست نہیں اور ان کے بقول ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہی زیر گردش قرضے کا مسئلہ دوبارہ پیدا ہوا ہے۔
’’بظاہر چینی سرمایہ کاروں کو لانے کے لیے ہائی ریٹرنز اور رولز میں ترمیم کی جارہی ہے مگر وہ سرمایہ کاری آئی بھی تو اس کے ثمر میں وقت لگے گا اور عوام کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہیں کیا گیا اور کہا گیا تھا کہ فوری یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔‘‘
انہوں نے خدشے کا اظہار بھی کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج میں شدت آئے گی۔
’’میاں شہباز شریف نے گزشتہ دور حکومت میں مثال قائم کی تھی اور لوگوں سے کہا تھا کہ بجلی کے بل نا دو اور احتجاج کرو، آج وہ صورتحال سامنے نظر آرہی ہے اور لوگ سڑکوں پر ہیں۔‘‘
حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے رکن رائے حسن نواز خان کہتے ہیں۔
’’واپڈا کے لوگوں کے بغیر بجلی کی چوری ممکن نہیں بلکہ وہ خود آپ کی مدد کرتے ہیں تو واپڈا میں بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے۔ اب ایک سال کے بعد انہوں نے واپڈا چیئرمین لگایا بھی تو کسی پروفیشنل کی جگہ سابقہ بیوروکریٹ کو لگایا۔‘‘
ماہرین اور عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ توانائی پر ان کے بقول غیر منصفانہ مراعات کے خاتمے اور بجلی کی ترسیل کے اداروں کو فعال بنائے بغیر توانائی کے بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اپنے حالیہ اجلاس میں بھی نواز انتظامیہ کو توانائی کے شعبے میں اصلاحات کو تیز کرنے پر زور دیا ہے۔
یہ کارروائی وزیرمملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی کی منگل کو ذرائع ابلاغ میں گفتگو کے کچھ دیر کے بعد ہی کی گئی جس میں انہوں نے بتایا کہ پانی اور بجلی کے محکمے نے صوبوں اور سرکاری محکموں سے مجموعی طور پر 475 ارب روپے وصول کرنے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے برطانیہ کے دورے پر جانے سے پہلے انہیں ایک ماہ میں 33 ارب روپے وصول کرنے کا ٹارگٹ دیا ہے جو کہ ہر حال میں پورا کیا جائے گا۔
وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ایک عہدیدار نے بجلی کی ترسیل کے منقطع ہونے کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں بجلی کی ترسیل بدستور جاری ہے۔ ’’ان کی ادائیگی کا معاملہ بظاہر نہیں ہوگا۔ اس لئے وہاں بجلی ہے۔‘‘
عابد شیر علی نے کہا کہ قانون سازوں کی سرکاری رہائش گاہ یعنی پارلیمنٹ لاجز کی بجلی بھی منقطع کر دی گئی ہے جبکہ ایوان صدر، سپریم کورٹ کی بلڈنگ اور چیف جسٹس ہاؤس کے خلاف ایسی ہی کارروائی کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں وہاں دراصل سب سے زیادہ بجلی کی چوری ہو رہی تھی۔
’’جہاں نقصانات 90 فیصد تھے وہاں 20 سے 22 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے اور جہاں نقصانات کم ہیں وہاں کم۔ احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن کسی بھی گرڈ سٹیشن کو نقصان پہنچا تو اُس کی مرمت وفاقی حکومت نہیں کرے گی۔"
وزیر مملکت کے بقول اس وقت بجلی کی رسد اور طلب میں فرق پانچ ہزار میگاواٹ سے تجاوز ہوچکا ہے۔
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور اقتدار سنبھالتے ہی نواز انتظامیہ نے گزشتہ سال بجلی کی پیداواری کمپنیوں اور تیل فراہم کرنے والے اداروں کو زیر گردش قرضوں کی مد میں پانچ سو ارب روپے سے زائد ادا کیے اور سرکاری حکام کے مطابق اس قرضے کے حجم میں ایک بار پھر تقریباً اتنا ہی اضافہ ہوگیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے رکن محسن خان لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی اس مہم کا یہ وقت درست نہیں اور ان کے بقول ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہی زیر گردش قرضے کا مسئلہ دوبارہ پیدا ہوا ہے۔
’’بظاہر چینی سرمایہ کاروں کو لانے کے لیے ہائی ریٹرنز اور رولز میں ترمیم کی جارہی ہے مگر وہ سرمایہ کاری آئی بھی تو اس کے ثمر میں وقت لگے گا اور عوام کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہیں کیا گیا اور کہا گیا تھا کہ فوری یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔‘‘
انہوں نے خدشے کا اظہار بھی کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج میں شدت آئے گی۔
’’میاں شہباز شریف نے گزشتہ دور حکومت میں مثال قائم کی تھی اور لوگوں سے کہا تھا کہ بجلی کے بل نا دو اور احتجاج کرو، آج وہ صورتحال سامنے نظر آرہی ہے اور لوگ سڑکوں پر ہیں۔‘‘
حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے رکن رائے حسن نواز خان کہتے ہیں۔
’’واپڈا کے لوگوں کے بغیر بجلی کی چوری ممکن نہیں بلکہ وہ خود آپ کی مدد کرتے ہیں تو واپڈا میں بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے۔ اب ایک سال کے بعد انہوں نے واپڈا چیئرمین لگایا بھی تو کسی پروفیشنل کی جگہ سابقہ بیوروکریٹ کو لگایا۔‘‘
ماہرین اور عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ توانائی پر ان کے بقول غیر منصفانہ مراعات کے خاتمے اور بجلی کی ترسیل کے اداروں کو فعال بنائے بغیر توانائی کے بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اپنے حالیہ اجلاس میں بھی نواز انتظامیہ کو توانائی کے شعبے میں اصلاحات کو تیز کرنے پر زور دیا ہے۔