اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت منگل کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں حکومت کی مجوزہ توانائی پالیسی پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں توانائی پالیسی کی منظوری متوقع تھی لیکن صوبائی وزرائے اعلٰی نے مشاورت کے لیے مزید مہلت مانگی۔
مشترکہ مفادات کونسل نے تمام صوبوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو آئین کی روشنی میں حکومت کی مجوزہ توانائی پالیسی کا جائزہ لینے کے بعد ایک ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
کونسل کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ توانائی کا بحران ملک کو درپیش ایک بڑا چیلنج ہے جس کے حل کے لیے بھرپور کوششیں کرنا ہوں گی۔
اُنھوں نے کہا کہ بجلی کی طلب اور رسد میں فرق، بجلی چوری اور اس کی ترسیل کا غیر موثر نظام اور پیدواری لاگت اس بحران کی بڑی وجوہات ہیں۔
وزیراعظم نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ ملک میں 45 فیصد بجلی ’فرنس آئل‘ سے پیدا کی جا رہی ہے، جو انتہائی مہنگی ہے جب کہ ہر سال لگ بھگ 140 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت آئندہ تین سے چار سال کے دوران بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی سائرہ افضل تارڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ توانائی پالیسی کے بارے میں خود وزیراعظم قوم کو آگاہ کریں گے کیوں کہ عوام اس بحران کے خاتمے کے لیے حکومت کے اقدامات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے منگل کو ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ حکومت نئی توانائی پالیسی کے تحت سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ توانائی پالیسی کا ایک اہم جز بجلی نرخوں پر دی جانے والی سبسڈی یا رعایت کو کم کرنا ہے تاہم وزیراعظم نے بقول 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بدستور سبسڈی دی جاتی رہے گی۔
اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرا علٰی اور کونسل کے دیگر ممبران نے شرکت کی۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت میں مشترکہ مفادات کونسل کا یہ پہلا اجلاس تھا۔
اجلاس میں توانائی پالیسی کی منظوری متوقع تھی لیکن صوبائی وزرائے اعلٰی نے مشاورت کے لیے مزید مہلت مانگی۔
مشترکہ مفادات کونسل نے تمام صوبوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو آئین کی روشنی میں حکومت کی مجوزہ توانائی پالیسی کا جائزہ لینے کے بعد ایک ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
کونسل کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ توانائی کا بحران ملک کو درپیش ایک بڑا چیلنج ہے جس کے حل کے لیے بھرپور کوششیں کرنا ہوں گی۔
اُنھوں نے کہا کہ بجلی کی طلب اور رسد میں فرق، بجلی چوری اور اس کی ترسیل کا غیر موثر نظام اور پیدواری لاگت اس بحران کی بڑی وجوہات ہیں۔
وزیراعظم نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ ملک میں 45 فیصد بجلی ’فرنس آئل‘ سے پیدا کی جا رہی ہے، جو انتہائی مہنگی ہے جب کہ ہر سال لگ بھگ 140 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت آئندہ تین سے چار سال کے دوران بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی سائرہ افضل تارڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ توانائی پالیسی کے بارے میں خود وزیراعظم قوم کو آگاہ کریں گے کیوں کہ عوام اس بحران کے خاتمے کے لیے حکومت کے اقدامات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے منگل کو ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ حکومت نئی توانائی پالیسی کے تحت سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ توانائی پالیسی کا ایک اہم جز بجلی نرخوں پر دی جانے والی سبسڈی یا رعایت کو کم کرنا ہے تاہم وزیراعظم نے بقول 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بدستور سبسڈی دی جاتی رہے گی۔
اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرا علٰی اور کونسل کے دیگر ممبران نے شرکت کی۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت میں مشترکہ مفادات کونسل کا یہ پہلا اجلاس تھا۔