یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کے سیلاب زدگان اور متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلیے اب تک 70 ملین یورو (89 ملین ڈالرز) سے زائد کی امداد کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ ای یو کی جانب سے اعلان کردہ یہ امداد اس رقم،امدادی اشیاء اور دیگر اقدامات کے علاوہ ہے جن کا وعدہ 27 رکنی یورپی تنظیم کے رکن ممالک نے آفت کی اس گھڑی میں پاکستان کیلیے انفرادی حیثیت میں کیا ہے۔ مجموعی طور پر یورپ کی جانب سے پاکستان کیلیے اعلان کردہ ہنگامی امداد کا حجم 225 ملین یورو (293 ملین ڈالرز) تک پہنچتا ہے۔
اس بڑے پیمانے پہ امدادی اعلانات اور سرگرمیوں کے باوجود پاکستان کو تاریخ کے اس بدترین سیلاب کے اثرات سے نبٹنے اور اس کی اقتصادیات کو دوبارہ اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے کی غرض سے یورپی یونین کئی طویل المدتی انتظامات پہ غور کررہی ہے۔
بحالی بذریعہ تجارت
گزشتہ ہفتے ای یو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب میں تنظیم کی خارجہ امور کی ذمہ دار کیتھرائن ایشٹن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فوری امدادی اشیاء کے علاوہ بھی بڑے پیمانے پہ امداد اور تعاون کی ضرورت ہے جس کا دائرہ خود ان کے الفاظ میں "اداروں کے استحکام، دہشت گردی کے خلاف جنگ ، سیلاب زدہ علاقوں اور متاثرہ انفراسٹرکچر کی بحالی اور باہمی تجارت کے ذریعے پاکستان کی معیشت کی بہتری" جیسے دور رست اور طویل المدتی اقدامات تک پھیلا ہوا ہے۔
ایشٹن کے الفاظ میں "پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دینے کیلیے سب سے اہم قدم یہ ہوگا کہ پاکستانی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی کیلیے خصوصی مراعات دی جائیں۔ کیتھرائن کی اس تجویز کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی اکثریت نے حمایت کرتے ہوئے اسے 16 ستمبر کو ہونے والے یورپی سربراہی اجلاس کے سامنے حتمی فیصلے کیلیے بھجوا دیا تھا ۔ آج ہونے والے اجلاس میں یورپی ممالک کے سربراہان پاکستان کی معاشی بحالی اور ترقی کیلیے تجارتی شعبے میں ضروری اقدامات اٹھانے کی تجاویز پہ غور کررہے ہیں۔
یورپ اور پاکستان کی باہمی تجارت
پاکستان کی سالانہ مجموعی بیرونی تجارت میں یورپین یونین کا حصہ 20 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان یورپی ممالک کوسالانہ 3ء4 بلین یورو کی مصنوعات برآمد کرتاہے جن میں بیشتر ٹیکسٹائل اور چمڑے سے بننے والی اشیاءشامل ہوتی ہیں۔ جبکہ یورپی ممالک سے پاکستانی درآمدات سالانہ 3ء8 ارب یورو ہیں جن کی اکثریت میکانیکی و الیکٹریکل آلات و مشینیں اور کیمیائی اور فارموسیوٹیکل مصنوعات پہ مشتمل ہوتی ہے۔
سن 2003 سے 2007 کا عرصہ پاکستان و یورپی یونین کے باہمی تجارتی تعلقات کا سنہری عرصہ قرار دیا جاسکتا ہے جس میں باہمی تجارت کے حجم میں سالانہ آٹھ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
آج کے اجلاس میں ستائیس یورپی ممالک کے سربراہان کے سامنے رکھی جانے والی تجاویز کا مقصد پاکستانی مصنوعات کیلیے یورپی ممالک میں درآمدی محصولات میں کمی اور خصوصی سہولیات کے ذریعے دنیا کے سب سےبڑے تجارتی بلاک اور پچاس کروڑ سے زائد صارفین کی مارکیٹ تک پاکستان کی رسائی میں اضافہ ممکن بنانا ہے۔
یورپی یونین پاکستان کو اپنی منڈیوں تک تجارتی راہداری کی فراہمی اور پاکستانی مصنوعات کو خصوصی حیثیت دینے کیلیے جن اقدامات پہ غور کررہی ہے، وہ درج ذیل ہیں:
پاکستانی برآمدات اور ڈبلیو ٹی او
یورپی رہنمائوں کے زیرِ غور سرِ فہرست تجویز پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں میں درآمد پر پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے طے کردہ رعایتی درآمدی ٹیرف اور ٹیکسز کا اطلاق کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان کی مصنوعات کو یورپی ممالک میں درآمد کے وقت ہر ملک میں نافذ علیحدہ علیحدہ ڈیوٹیز اور ٹیرفس کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ بلوم برگ بزنس کے تجزیہ کے مطابق اگر یورپین یونین پاکستان کو اس سہولت کی یک طرفہ فراہمی پہ متفق ہو گئی تو اس سے پاکستان کو سالانہ230 سے 300 ملین یورو (290 تا 380 ملین ڈالرز) کی بچت ہوگی۔
تاہم پاکستانی معاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ اگر یورپی حکومتوں کی جانب سے پاکستانی مصنوعات پر ڈبلیو ٹی او کے ٹیرف لاگو کیے گئے تو اس کے بعد پاکستانی تاجروں پر اپنی مصنوعات بھی عالمی ادارے کے معیار کے مطابق کرنے کیلیے دبائو بڑھ جائے گا، جس سے پیداواری اخراجات میں اضافہ ہونے کے باعث پاکستان کیلیے زرِمبادلہ کی بیان کردہ بچت کے حصول میں مشکلات حائل ہونگی۔
پاکستانی مصنوعات کی ڈیوٹی فر ی درآمد
یورپی حکام کی جانب سے پاکستان کو ممکنہ طور پر جو دوسری سہولت فراہم کرنے پہ غور کیا جارہا ہے اس کے مطابق پاکستان کی چندمخصوص برآمدی مصنوعات کو یورپ میں "ڈیوٹی فری اسٹیٹس" دیتے ہوئے انہیں ہر قسم کے محصولات سے مستثنیٰ قرار دیا جائےگا۔ یورپی سفارتی حکام کے مطابق زیادہ تر یورپی حکومتیں اس تجویز کی حمایتی ہیں کہ پاکستانی مصنوعات کی ایک متعین فہرست کو ہر قسم کی درآمدی ڈیوٹیز سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے انہیں یورپی منڈیوں تک کھلی رسائی دے دی جائے۔
اس مقصد کیلیے یونین کے تجارتی معاملات کے نگران ادارے یورپین کمیشن کی جانب سے یورپی وزرائے تجارت کو 13 اقسام کی پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایک فہرست ارسال کی گئی ہے جن پر کمیشن کے رائے کے مطابق محصولات میں ململ چھوٹ دی جاسکتی ہے۔ تاہم یورپی حکام کے مطابق اس سہولت سے پاکستان کو لگ بھگ 25 ملین یوروز کی سالانہ بچت ہوگی جو باہمی تجارت کے مجموعی حجم کے مقابلے میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔
محصولات میں چھوٹ
یورپی ممالک کے زیرِ غور تیسرا ممکنہ قدم پاکستانی کی کچھ اہم ترین برآمدی مصنوعات پہ لاگو محصولات کو قوانین میں نرمی کرکے یورپ کے "پسندیدہ ترین ممالک" کیلیے نافذ ٹیرف تک کم کیا جانا ہے۔ اس قدم سے یورپ کو پاکستانی ٹیکسٹائل درآمدات میں 55 ملین ڈالرز تک اضافے کا تخمینہ ہے۔ تاہم اگر یورپی یونین نے ایسا کیا تو مقابلے کی فضاء برقرار رکھنے کے قوانین کے تحت وہ یہ سہولت رعایتی مصنوعات تیار کرنے والے خطے کے دیگر دو بڑے ٹریڈ پارٹنرز بھارت اور چین کو بھی فراہم کرنے کی پابند ہوگی جس سے ان دو ممالک کی یورپی یونین کو برآمدات میں بالترتیب 15 ملین ڈالرز اور 25 ملین ڈالرز کا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
حمایت و مخالفت
پاکستان کو تجارتی رعایتوں کی فراہمی کی حمایت میں سرِ فہرست برطانیہ اور جرمنی ہیں جن کی جانب سے یورپی یونین کے رکن ممالک پر پاکستان کیلیے درآمدی قوانین میں نرمی اور محصولات میں چھوٹ کیلیے بھرپور مہم چلائی جارہی ہے۔ ان دونوں ممالک کی جانب سے پاکستان کی حمایت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جرمنی اور برطانیہ انفرادی حیثیت میں یورپی بلاک میں پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ انہی کوششوں کے سلسلے میں برطانوی وزیرِ اعظم نے اپنے یورپین ہم منصبوں کو ایک خط بھی تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے ای یو کی جانب سے پاکستان کو یورپی منڈیوں تک فوری رسائی دینے کیلیے پختہ سیاسی عزم کے اظہار پر زور دیا ہے۔
تاہم کئی یورپی ممالک تجارتی مراعات کی فراہمی کے بجائے سیلاب کے بعد دی جانے والی روایتی امداد کے سلسلے کو جاری رکھ کر پاکستان کی مدد کرنے پہ زور دے رہے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک اس مخالفت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کیلیے رعایتی فہرست میں شامل مصنوعات کی اکثریت ان ممالک میں تیار کی جاتی ہے اور ان ممالک کا رائے ہے کہ پاکستان سے ان مصنوعات کی ڈیوٹی فری درآمد سے ان کی اندرونی صنعتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ان ممالک میں سرِ فہرست فرانس ہے جس کے دعویٰ کے مطابق پاکستان سے رعایتی برآمدات کے سبب فرانس کی لیموجس نامی علاقے میں موجود 14 ملین یوروز کی سالانہ پیداوار دینے والی ٹیکسٹائل کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوگی۔ تاہم پاکستان کی حمایت کرنے والے یورپی حکام فرانس کی مخالفت کو اس دلیل کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں کہ فرانس کی ٹیکسٹائل پیداوار کا کل حجم پاکستان اور جرمنی اور پاکستان اور اٹلی کی ٹیکسٹائل سیکٹر میں ہونے والی سالانہ باہمی تجارت کا بالترتیب محض ایک چوتھائی اور دس فیصد ہے، جس کے باعث ان کے نزدیک فرانس کو اس نئی ٹریڈ ڈیل سے کوئی خاص نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں۔
یورپ کی ٹیکسٹائل صنعت کی مرکزی تنظیم "یورا ٹیکس" کی جانب سے بھی پاکستان کو کسی قسم کی تجارتی رعایت فراہم کرنے کی سخت مخالفت کی جارہی ہے۔ تنظیم کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ کے مطابق پاکستان کو رعایتوں کی فراہمی سے یورپ کی داخلی ٹیکسٹائل صنعت کو ایک ایسے وقت میں سخت بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب عالمی منڈی میں کپاس کی قیمت بتدریج بڑھ رہی ہے۔
یورپی یونین کے ٹریڈ چیف کیرل ڈی گٹ کے مطابق اگر پاکستان کیلیے مذکورہ بالا کوئی بھی رعایت منظور کیے جانے کے باعث یورپ کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو زیادہ سے زیادہ 23 ملین یوروز کا سالانہ خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔