گذشتہ روز کراچی کی حیدری مارکیٹ میں ہونےوالے بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والے آٹھ میں سے پانچ افراد کا تعلق داؤدی بوہرہ برادری سے تھا، جب کہ زخمیوں میں سے متعدد افراد بھی اسی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، جس کے باعث یہ برادری اس وقت خوف زدہ ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اِس خوف کی ایک وجہ سیکورٹی اداروں کی جانب سے جاری کی جانے والی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس بھی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ دھماکوں میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی ملوث ہے۔
ڈی آئی جی ویسٹ نعیم اکرم برو کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں کالعدم تنظیم ”لشکر جھنگوی“ کا ’شجاع حیدر گروپ‘ ملوث ہے۔ یہ گروپ اس سے پہلے بھی شہر میں کئی مقامات پر فرقہ ورانہ نوعیت کے بم دھماکے کرچکا ہے، جن میں ملیر 15، نرسری برج، جناح اسپتال اور نجی اسپتال دارالصحت دھماکے شامل ہیں ۔
سی آئی ڈی انوسٹی گیشن ، سپرنٹنڈ نٹ آف پولیس مظہر مشوانی کا بھی یہی کہنا ہے کہ دھماکے میں لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ دھماکے میں بال بیئرنگ کی گولیاں بھی استعمال کی گئی تھیں ۔ یہ گولیاں عموماً فرقہ ورانہ دہشت گردی پھیلانے والی کالعدم تنظیمیں استعمال کرتی ہیں اور اِن تنظیموں میں لشکر جھنگوی سرفہرست ہے۔ لہذا، اِس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ حیدری بم دھماکوں میں لشکر جھنگوی ملوث ہے۔
سی آئی ڈی کے ہی ایک اور افسر اسلم خان نے مقامی میڈیا کو بیان دیا ہے کہ دھماکوں کا مقصد داوٴدی بوہرہ برادری کو نشانہ بنانا تھا ۔ ہماری اب تک کی تفتیش اور تحقیقات بھی اسی جانب اشارہ کررہی ہیں۔
چونکہ دھماکے کمیونٹی کی عبادت گاہ کے قریب ہوئے ہیں اس کی وجہ سے بھی علاقہ مکینوں اور خاص کربوہرہ برادری کے خوف میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ برادری کے رہنماؤں، جنہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی ، کا کہنا ہے کہ اگر واقعی دھماکوں میں لشکر جھنگوی ملوث ہے توبرادری کے خوف میں اضافہ لازمی ہے۔ حالات و واقعات گواہ ہیں کہ لشکر جھنگوی مخصوض فرقے کے لوگوں خاص کر اہل تشیع افراد کو اپنا نشانہ بناتی رہی ہے۔
علاقے کے ایک اور مکین برہان کا کہنا ہے کہ” اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آگے بھی ہمیں نشانہ بناسکتی ہے اور اگر حکومت کی جانب سےکوئی فوری کارروائی نہ کی گئی تو اُس کے حوصلے مزید بلند ہوجائیں گے۔“
داوٴدی بوہرہ کراچی کی ایک امن پسند برادری کے طور پر جانی جاتی ہے ، جس کی نہ تو کسی سے کوئی بیر ہے اور نہ ہی یہ کسی دوسرے فرقے ، مذہب یا عقیدے کے حوالے سے کسی سے اختلاف رکھتی ہے ۔ اس کے باوجود منگل کی شب کمیونٹی کے گڑھ اور خاص کر ان کی عبادت گاہ کے قریب پے در پے دو بم دھماکے اور ان میں آٹھ انسانی جانوں کے نقصان نے کمیونٹی سےتعلق رکھنے والے ہر فرد کو خوف زدہ کر دیا ہے۔
اسی برادری سے تعلق رکھنے والے حیدری کے رہائشی سیف الدین وائی دیوان نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی برادری کے لئے یہ واقعہ سمجھ سے باہر ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ، ”مجھے اس علاقے میں آباد ہوئے 40سال ہونےوالے ہیں۔ اِس مدت میں کبھی ایک بار بھی ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ۔ اس سانحے میں میرا ایک عزیز بھی شدید زخمی ہوا ہے ‘۔
ڈالمین سینٹر کے عقب سے 13اگست کو بھی ایک بم ملا تھا جسے سب سے پہلے اسماعیل نام کے ایک نوجوان نے دیکھا اور پولیس کو مطلع کیا تھا ۔ اسماعیل کی اس بروقت حاضر دماغی کے سبب وہ بم پھٹنے سے پہلے ناکارہ بنادیا گیا اور یوں پورا علاقہ ایک بڑی تباہی سے بچ گیا۔ لیکن، شائد اسماعیل کو اسی قسم کے حادثے کا شکار ہوکر اس دنیا سے جانا تھا اسی لئے گزشتہ شب ہونے والے دہرے بم دھماکے میں اسماعیل بھی دہشت گردی کا نشانہ بن گیا۔
اسماعیل کا تعلق بھی داوٴدی بوہرہ برادری سے تھا ۔ وہ دھماکے سے کچھ ہی لمحے قبل اپنے ایک سالہ بھتیجے شبیر عون علی کو گود میں لے کر گھر سے باہر نکلا تھا ۔ وہ جیسے ہی ایک دکان تک پہنچا زور دار دھماکا ہوا اور اسماعیل و شبیر موقع پرہی لقمہ اجل بن گئے۔ شبیر اپنے والد عون علی کی واحد اولاد تھا اور شادی کے دس سال بعد پیدا ہوا تھا ۔
بتایا جاتا ہے کہ اِس خوف کی ایک وجہ سیکورٹی اداروں کی جانب سے جاری کی جانے والی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس بھی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ دھماکوں میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی ملوث ہے۔
ڈی آئی جی ویسٹ نعیم اکرم برو کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں کالعدم تنظیم ”لشکر جھنگوی“ کا ’شجاع حیدر گروپ‘ ملوث ہے۔ یہ گروپ اس سے پہلے بھی شہر میں کئی مقامات پر فرقہ ورانہ نوعیت کے بم دھماکے کرچکا ہے، جن میں ملیر 15، نرسری برج، جناح اسپتال اور نجی اسپتال دارالصحت دھماکے شامل ہیں ۔
سی آئی ڈی انوسٹی گیشن ، سپرنٹنڈ نٹ آف پولیس مظہر مشوانی کا بھی یہی کہنا ہے کہ دھماکے میں لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ دھماکے میں بال بیئرنگ کی گولیاں بھی استعمال کی گئی تھیں ۔ یہ گولیاں عموماً فرقہ ورانہ دہشت گردی پھیلانے والی کالعدم تنظیمیں استعمال کرتی ہیں اور اِن تنظیموں میں لشکر جھنگوی سرفہرست ہے۔ لہذا، اِس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ حیدری بم دھماکوں میں لشکر جھنگوی ملوث ہے۔
سی آئی ڈی کے ہی ایک اور افسر اسلم خان نے مقامی میڈیا کو بیان دیا ہے کہ دھماکوں کا مقصد داوٴدی بوہرہ برادری کو نشانہ بنانا تھا ۔ ہماری اب تک کی تفتیش اور تحقیقات بھی اسی جانب اشارہ کررہی ہیں۔
چونکہ دھماکے کمیونٹی کی عبادت گاہ کے قریب ہوئے ہیں اس کی وجہ سے بھی علاقہ مکینوں اور خاص کربوہرہ برادری کے خوف میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ برادری کے رہنماؤں، جنہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی ، کا کہنا ہے کہ اگر واقعی دھماکوں میں لشکر جھنگوی ملوث ہے توبرادری کے خوف میں اضافہ لازمی ہے۔ حالات و واقعات گواہ ہیں کہ لشکر جھنگوی مخصوض فرقے کے لوگوں خاص کر اہل تشیع افراد کو اپنا نشانہ بناتی رہی ہے۔
علاقے کے ایک اور مکین برہان کا کہنا ہے کہ” اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آگے بھی ہمیں نشانہ بناسکتی ہے اور اگر حکومت کی جانب سےکوئی فوری کارروائی نہ کی گئی تو اُس کے حوصلے مزید بلند ہوجائیں گے۔“
داوٴدی بوہرہ کراچی کی ایک امن پسند برادری کے طور پر جانی جاتی ہے ، جس کی نہ تو کسی سے کوئی بیر ہے اور نہ ہی یہ کسی دوسرے فرقے ، مذہب یا عقیدے کے حوالے سے کسی سے اختلاف رکھتی ہے ۔ اس کے باوجود منگل کی شب کمیونٹی کے گڑھ اور خاص کر ان کی عبادت گاہ کے قریب پے در پے دو بم دھماکے اور ان میں آٹھ انسانی جانوں کے نقصان نے کمیونٹی سےتعلق رکھنے والے ہر فرد کو خوف زدہ کر دیا ہے۔
اسی برادری سے تعلق رکھنے والے حیدری کے رہائشی سیف الدین وائی دیوان نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی برادری کے لئے یہ واقعہ سمجھ سے باہر ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ، ”مجھے اس علاقے میں آباد ہوئے 40سال ہونےوالے ہیں۔ اِس مدت میں کبھی ایک بار بھی ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ۔ اس سانحے میں میرا ایک عزیز بھی شدید زخمی ہوا ہے ‘۔
ڈالمین سینٹر کے عقب سے 13اگست کو بھی ایک بم ملا تھا جسے سب سے پہلے اسماعیل نام کے ایک نوجوان نے دیکھا اور پولیس کو مطلع کیا تھا ۔ اسماعیل کی اس بروقت حاضر دماغی کے سبب وہ بم پھٹنے سے پہلے ناکارہ بنادیا گیا اور یوں پورا علاقہ ایک بڑی تباہی سے بچ گیا۔ لیکن، شائد اسماعیل کو اسی قسم کے حادثے کا شکار ہوکر اس دنیا سے جانا تھا اسی لئے گزشتہ شب ہونے والے دہرے بم دھماکے میں اسماعیل بھی دہشت گردی کا نشانہ بن گیا۔
اسماعیل کا تعلق بھی داوٴدی بوہرہ برادری سے تھا ۔ وہ دھماکے سے کچھ ہی لمحے قبل اپنے ایک سالہ بھتیجے شبیر عون علی کو گود میں لے کر گھر سے باہر نکلا تھا ۔ وہ جیسے ہی ایک دکان تک پہنچا زور دار دھماکا ہوا اور اسماعیل و شبیر موقع پرہی لقمہ اجل بن گئے۔ شبیر اپنے والد عون علی کی واحد اولاد تھا اور شادی کے دس سال بعد پیدا ہوا تھا ۔