تعلیم یافتہ نوجوانوں میں انتہا پسندانہ رجحانات پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار دیکھنے میں آ رہا ہے اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر اب بھی اس بابت سنجیدہ اقدام نہ کیے گئے تو حالات قابو سے باہر ہونے کا خدشہ ہے۔
تین روز قبل کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے صوبائی قانون ساز خواجہ اظہار الحسن پر ہونے والے ناکام قاتلانہ حملے میں ملوث عناصر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑی جامعات سے وابستہ تھے۔
دو سال قبل صفورہ گوٹھ کراچی میں اسماعیلی برادری کی ایک بس اور اسی ساحلی شہر میں معروف سماجی کارکن ثبین محمود پر مہلک حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ملوث پائے گئے تھے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی حال ہی میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے متنبہ کر چکے ہیں کہ داعش اور اس جیسی شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر توجہ دی رہی ہیں اور اس کے لیے ان کا ہدف خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔
متعدد اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ رہنے والی ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مدارس پر توجہ دی جاتی رہی جو کہ اپنی جگہ درست بھی ہے لیکن اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انتہاپسندانہ رجحانات کے بارے میں آزاد خیال حلقوں کے اشاروں کے باوجود اس پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب چونکہ اس انتہا پسندانہ رجحان کا اثر جامعات سے باہر نظر آنے لگا ہے تو معاشرے میں اضطراب پایا جانے لگا ہے۔
"میں بہت بار کہہ چکی ہوں کہ ہماری ساری توجہ مدارس کی طرف تھی، وہاں جو انتہا پسند بنتا ہے وہ فُٹ سولجر ہوتا ہے میں یہ نہیں کہتی کہ وہ کم تکلیف دہ بات ہے اور اس کے بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ جو جامعات میں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی ہے وہاں منصوبہ ساز بنتے ہیں یہ کمپیوٹر سے واقفیت رکھتے ہیں ان کو پڑھنا لکھنا آتا ہے یہ دانشمندانہ طور پر ایک اور سوچ کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور اس کا ہم نے ادراک نہ کیا تو مسائل نکل سے جائیں گے بلکہ میں سمجھتی ہوں نکل بھی گئے ہیں۔"
رواں سال کے اوائل میں قومی اسمبلی میں ایک خاتون قانون ساز رومینا خورشید عالم نے پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک مرکز کے قیام کا مسودہ متعارف کروایا تھا اور اس میں بھی خاص طور پر نوجوانوں پر توجہ دینے کا ذکر کیا گیا تھا۔
منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں اس مسودے پر غور اور تبادلہ خیال کیا گیا۔
ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ اس کے لیے فوری اقدام کے ساتھ ساتھ ایک طویل المدت اور دیرپا لائحہ عمل وضع کیا جانا از حد ضروری ہے۔
"دیکھیں یہ سب چیزیں جو اس وقت ہو رہی ہیں یہ آگ بجھاؤ والی حکمت عملی ہے جب آگ لگ رہی تھی جب آگ سلگھ رہی تھی اس وقت آپ نے کچھ نہیں کیا۔ اب آپ پہلے آگ بجھائے اور پھر دیرپا حکمت عملی وضع کیجیے تاکہ یہ دوبارہ نہ سلگھے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس بابت نہ صرف طلبا بلکہ جامعات اور تعلیمی اداروں کے اساتذہ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بچوں کی ذہن سازی میں اساتذہ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔