وفاقی دارالحکومت میں ماتحت عدلیہ کے ایک جج اور ان کی اہلیہ کی طرف سے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنائی جانے والی کم سن ملازمہ کے والد نے ملزمان کو معاف کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے کسی دباؤ میں آئے بغیر یہ فیصلہ کیا اور انھیں کوئی اعتراض نہیں کہ اگر عدالت ملزمان کو بری کرے یا ضمانت پر رہا کرے۔
گزشتہ ہفتے پولیس نے ایڈیشنل وسیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے دس سالہ لڑکی کو برآمد کیا تھا جس کے چہرے اور ہاتھوں پر زخم تھے۔ لڑکی نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جج کی اہلیہ نے مبینہ طور پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور یہ دونوں اس سے نامناسب سلوک رکھتے رہے ہیں۔
اس معاملے کے منظر عام پر آنے کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ایک بار پھر بچوں کے حقوق سے متعلق بحث چھڑ گئی تھی۔
لیکن منگل کو بچی کے والد نے ایک بیان حلفی جمع کروایا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ اپنے طور پر کی گئی چھان بین سے انھیں پتا چلا کہ یہ مقدمہ بے بنیاد واقعات پر درج کیا گیا اور انھوں نے بغیر کسی دباؤ کے ملزمان سے راضی نامہ کر لیا ہے۔
عدالت نے بچی کے والد کے اس بیان کے بعد تشدد کے الزام میں ملوث جج کی اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔
کم سن بچوں سے مشقت لیے جانے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے ایسے واقعات پاکستان میں کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ جہاں ملک کی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی 29.5 فیصد آبادی کی اکثریت کے بچے بنیادی حقوق سے یکسر محروم دکھائی دیتے ہیں اور اپنے گھر کا چولہا جلانے میں اپنے بڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور ہیں۔
بچوں اور خواتین کے حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور ماہر قانون دان ضیا احمد اعوان کہتے ہیں مضروب بچی کے والدین یا سرپرست کچھ بھی کہیں اگر اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے تو اس معاملے میں ریاست کو فریق بننا چاہیے۔
"اس میں تو ریاست کو مدعی ہونا چاہیے کہ بچی کو طبی معائنہ ہوا ہے اس کا بیان ہوا ہے جو اخباروں میں آیا ہے اور فی البدیہہ جو چیزیں ہوتی ہیں وہ سچی ہوتی ہیں تو یہ تو ایک واضح معاملہ ہے اس میں ریاست کی طرف سے سنگین ردعمل آنا چاہیے۔"
بچوں کے حقوق اور فلاح و بہبود سے متعلق ملک میں قوانین تو موجود ہیں لیکن اس شعبے میں بھی ان کے موثر انداز میں نافذ العمل نہ ہونے کا معالہ درپیش ہے۔
ضیا اعوان کہتے ہیں کہ قانون کے موثر نفاذ سے احتساب کے عمل کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔
" سارا مسئلہ یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی اس لیے نہیں ہے اس کے نفاذ کے جو ادارے ہیں بشمول عدلیہ وہ کمزور ہیں۔ اس میں لوگوں کو اتنے راستے مل جاتے ہیں کہ وہ نکل جاتے ہیں۔۔۔میں تو کہتا ہوں کہ چاہے وہ جج ہو وکیل ہو یا کوئی بھی اگر کسی نے جرم کا ارتکاب کیا ہے تو اس کا احتساب ہونا چاہیے۔"
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ بچوں اور خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے قانون سازی سمیت ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ایسے مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں کہ جہاں کسی بھی زیادتی کی شکایت کی صورت میں اس کے ازالے کے لیے ادارے حرکت میں آتے ہیں۔