رسائی کے لنکس

خود کش حملے اور مسلح بغاوت خلاف شریعت ہے: علمائے دین کا فتویٰ


خودکش دھماکوں میں ہزاروں معصوم شہری ہلاک ہو چکے ہیں (فائل فوٹو)
خودکش دھماکوں میں ہزاروں معصوم شہری ہلاک ہو چکے ہیں (فائل فوٹو)

عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے فتوؤں کا بار بار دہرایا جانا اور ان کی بار بار تائید ہونا سوچ کی تبدیلی کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان میں تیس سے زائد علمائے دین نے ایک فتوے میں خود کش حملوں، ریاست کے خلاف مسلح بغاوت اور شریعت کے ںفاذ کے لیے طاقت کے استعمال کو حرام اور خلاف شریعت قرار دیا ہے۔

جن علمائے کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے ان کا تعلق مختلف مکاتب فکر سے ہے۔

31 علما کرام کے دستخطوں سے یہ فتویٰ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ’اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی' میں ہفتہ کو منعقد ہونے والے ایک سیمنار کے دوران جاری کیا گیا۔

اس کا موضوع" میثاق مدینہ کی روشنی میں پاکستانی معاشرے کی تعمیر نو اور پیغام پاکستان کا اعلان " تھا۔

فتوے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ خود کش حملے کرنے والے اور ان کی معاونت کرنے والے باغی ہیں۔ فتویٰ میں یہ بھی کہا گیا کہ جہاد کا اعلان کرنا صرف اسلامی ریاست کا اختیار ہے۔

پاکستان میں اس سے قبل بھی مذہبی رہنما کئی بار ایسے فتوے جاری کر چکے ہیں جن میں دہشت گردی کی کارروائیوں اور خودکش حملوں کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیتے ہوئے اُن کی شدید مذمت کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں ملوث کالعدم تنظیمیں ان کارروائیوں کا مذہبی جواز پیش کرتی رہی ہیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے سربراہ عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے فتوؤں کا بار بار دہرایا جانا اور ان کی بار بار تائید ہونا سوچ کی تبدیلی کے لیے ضروری ہے۔

"پہلے یہ شکایت رہی ہے کہ وضاحت کے ساتھ فتوے سامنے نہیں آتے تھے کہ کیا پاکستان میں خود کش حملے حرام ہیں یا باقی دنیا میں بھی حرام ہیں۔ میرا خیال ہے فتوؤں میں بھی بتدریج بہتری آرہی ہیں اور اب خاصی چیزیں واضح ہوئیں اور انہوں نے (اس فتوے میں) خودکش حملوں کو حرام قرار دیا ہے اور اس مرتبہ اس کے ساتھ کوئی شرائط بھی عائد نہیں کیں ہیں۔"

معروف مذہبی دانشور ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کہتے کہ "میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے فتوؤں کا بار بار اجرا حقیقت میں لوگوں کے دلوں میں اس امر کو راسخ کرنے کے لیے ہے کہ ہم نے کسی بھی طور دہشت گردی کا ساتھ نہیں دینا ہے اور نا ہی ان کا آلہ کار بننا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مذہبی راہنما اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

" میں یہ سمجھتا ہوں کہ مذہبی راہنماؤں کو بہت قوت کےساتھ آگے بڑھ کر دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف اپنے بیانیے کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی دلوں سے اس کی جڑوں کو ہم نکال کر باہر پھینک دیں۔"

تاہم راغب نعیمی نے کہا یہ بہت بڑا چیلنج ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مسئلہ ایک یا دو سال میں ختم ہوجائے گا۔ ان کے بقول جتنا طویل عرصہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو پروان چڑھنے میں لگا کم و بیش اتنا ہی عرصہ اسے ختم کرنے کے لیے درکار ہو گا۔

پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے چیلنج کا سامنا ہے جس سے ریاست کے سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نبرد آزما ہیں تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے اس کے خاتمے کے لیے ایک متبادل بیانیے کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔

XS
SM
MD
LG