گرمی کا موسم ہے، دماغ کو چکرا دینے والی سخت دھوپ ہے۔ ایسے میں ٹریفک وارڈن محمد فاروق ٹریفک کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے، جس نے ٹریفک قوانین اور اُصولوں کی پاسداری بھی یقینی بنانی ہے اور دوران ڈیوٹی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، رکشوں، موٹر سائیکل رکشوں اور بسوں کا شور بھی برداشت کرنا ہے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے لیکن جہاں کہیں غلطی کرنے والی کسی سواری یا سوار کو روک کر سمجھانے یا چالان کی ہمت ہو جائے تو بس وہیں محمد فاروق کا کام مزید بڑھ جاتا ہے۔
لاہور شہر کی مصروف ترین شاہراہ دو موریہ پُل پر فرائض سنبھالنے والے ٹریفک وارڈن محمد فاروق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہیلمٹ نہ پہننا، اوور سپیڈنگ، گاڑیوں کے شیشے کالے کر دینا، سائلنسر اُتارنا بڑے جرائم ہیں اور جو کوئی ان جرائم سمیت دیگر قوانین کی پروا نہیں کرے گا، اُسے روک کر سمجھانا یا چالان کرنا ہی ہماری ذمہ داری ہے، لیکن زیادہ تر لوگوں کو جب روکا جاتا ہے تو اُن کی طرف سے منت سماجت سے شروع ہونے والا سلسلہ اکثر تلخ کلامی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو وہ اپنے کسی جاننے والے افسر سے بات کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بات نہیں بنتی تو بات تو تو میں میں تک پہنچ جاتی ہے۔ اور جیسا کہ اب گرمیوں کا موسم ہے، اب تو اکثر لوگ گلے کو پڑتے ہیں۔ یا آپ یوں کہئیے کہ بعض دفعہ تو نوبت ہاتھا پائی تک بھی پُہنچ جاتی ہے۔
محمد فاروق کا کہنا بھی ٹھیک ہے کیونکہ لاہور کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے آپ کو وقتاً فوقتاً لڑتے جھگڑتے اور آپس میں دست و گریباں افراد نظر آ ہی جاتے ہیں۔ وہ ٹریفک وارڈن اور ڈرائیور بھی ہو سکتے ہیں، یا ایسے افراد ہو سکتےہیں جو سڑک پر نکلے تو کسی کام سے تھے لیکن راستہ نہ ملنے، ہارن دے کر راستہ لینے والے یا کسی سواری کے غلط کٹ سے مُتاثر ہونے پر جھگڑے میں پڑ جاتے ہیں۔ اور اس غصے یا لڑائی جھگڑے کا مظاہرہ کرنے والے ان پڑھ یا گنوار ہی نہیں ہوتے بلکہ گاڑی والوں سے لے کر اثر و رسوخ رکھنے والے بھی یہ حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
گیلپ کی جاری کردہ حالیہ عالمی جذبات 2019ء کی رپورٹ کے نتائج کے مطابق پاکستانی برہمی یا غصے میں رہنے والے ملُکوں کی فہرست میں دسویں نمبر پر ہیں۔
اس سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ 38 فیصد پاکستانی غصے یا ناراض ہونے کی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ گیلپ عالمی جذبات رپورٹ انسانی زندگی کے غیر مادی پہلوؤں جیسا کہ احساسات اور جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی ہے۔
اس فہرست میں 48 فی صد کے ساتھ عراق دوسرے نمبر پر، جب کہ 43 فی صد کے ساتھ ایران تیسرے نمبر پر ہے۔ تُرکی اور لیبیا بھی غصے سے بھرپور لوگوں کے ساتھ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔
ماہر سماجیات ڈاکٹر ذاکر ذکریا کے مطابق ایک زمانے میں ہم یہ دلیل دیتے تھے کہ جب تک لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے وہ اپنے اندر کی انتہا پسندی کو ختم نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ تعلیم انسان کے اندر بہتر سوچ، فکر و شعور اور روشنی پیدا کرتی ہے۔
لیکن آج ہمیں معاشرے میں پُرتشدد رجحانات میں تعلیم یافتہ یا پڑھا لکھا طبقہ بھی نظر آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا مجموعی تعلیمی نظام تربیت کے حوالے سے ایک بڑے علمی اور فکری بحران کا شکار ہے۔
ایک زمانے میں ہم بچوں کو سکھاتے تھے کہ کوئی اپنا ہے یا انجانا، اگر وہ آپ سے بڑا ہے تو اُس کی بات سُنیں جب کہ آج کل ہم جانے انجانے میں آزادی کے نام پر اپنے بچوں کو بدتہذیبی سکھا رہے ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے اور ہر کوئی اپنی ذات میں گم ہے۔
عدم برداشت اور خود کو صحیح کہنے اور سمجھنے کی سوچ ہمارے معاشرے کے زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ کب اُن کی بحث غصے کی انتہا چُھو لیتی ہے۔
لاہور کے ایک نجی کلینک میں نفسیاتی ماہر سے ملاقات کے لیے آنے والے قادر بخش ایک تاجر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ گزشتہ کُچھ برسوں سے اُن میں چڑچڑا پن بڑھا ہے، جو غصے کی حالت میں ملازمین پر اُترنے لگا ہے۔
شروع میں لگا کہ شاید بلڈ پریشر کا مسئلہ ہے، لیکن اب گھر والوں کے کہنے پر یہاں کے ڈاکٹر سے سیشن لینے شروع کیے ہیں۔ یہاں آ کر ایک بات معلوم ہوئی کہ میرے رویے پر موسم کا اثر بھی ہوتا ہے یعنی گرمی کے موسم میں، خصوصاً جب میں فیلڈ میں جا کر کام کرتا ہوں تو میری مزاج میں سختی آ جاتی ہے۔
دماغی امراض کے ماہر احسن نوید کہتے ہیں کہ ہم تربیت سے لے کر عدم برداشت، غُربت، مہنگائی، اور موسم کی شدت کو لوگوں میں غصے یا چڑچڑے پن میں اضافے کی وجہ قرار دے سکتے ہیں لیکن حال ہی میں ایک نیا پہلو بھی سامنے آیا ہے جس میں لوگ معروف سماجی یا سیاسی شخصیات کو ٹی وی یا سوشل میڈیا پر جھگڑتا دیکھتے ہیں، خود کو صحیح اور دوسرے پر الزام تراشی کرتا دیکھتے ہیں۔ یہ چیز بھی شعوری یا لاشعوری طور پر اُن کی شخصیت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
وہ یہ سوچتے ہیں کہ جب ایک پڑھا لکھا یا اثر و رسوخ رکھنے والا شخص ایسی زبان کا استعمال کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔ عدم برداشت کے اس بڑھتے ہوئے رویے پر قابو پانے کی ذمہ داری تمام شہریوں کی ہے، چاہے وہ والدین ہوں، اساتذہ ہوں، یا کوئی بھی عام فرد، انہیں صبر اور برداشت کے پیغام عام کرنا چاہیئے۔