پاکستان میں جاری تباہ کن سیلاب کی سنگینی اور اس ضمن میں متاثرین کی ضروریات سے عالمی برادری کو آگاہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس جمعرات کے روز منعقد ہو رہا ہے۔
یہ بات وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران بتائی۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ اس اجلاس کا مقصد فنڈز اکھٹے کرنا یا امداد کے وعدے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی طرف سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے کی گئی 46 کروڑ ڈالر کی عالمی امداد کی اپیل کو تقویت دینا ہے۔
’’اس اپیل پر آگے چل کر نظر ثانی کی جائے گی۔ ابتدائی طور پر اس کے تحت اگلے تین ماہ کے دوران متاثرین کو خوراک ،پینے کے صاف پانی چھت اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے‘‘۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن خاص طور پر شرکت کے لیے آ رہی ہیں اور اس موقع پر وہ دوسری اہم شخصیات سے دوطرفہ ملاقاتیں کر کے انھیں پاکستان کی ضرورت کے بارے میں بتائیں گے ۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اپنا جائزہ بھی پیش کریں گے جو انھوں نے اتوار کے روز پاکستان میں سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد مرتب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسٹر بان کی مون کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد تباہی کا پوری شدت سے احساس تھا جس کی مثال یہ ہے کہ انھوں نے اپیل کردہ عالمی امداد سے ہٹ کر ایک کروڑ ڈالر اضافی امداد کا فوری طور پراعلان کیا۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ انھوں نے امداد کے حصول کے لیے دوست ملکوں کو خط لکھے ہیں اور چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، کویت اور اومان سمیت سب ہی اپنی اپنی حد تک مدد فراہم کر رہے ہیں جب کہ اسی سلسلے میں اسلامی کانفرنس تنظیم سے ایک خصوصی اجلاس طلب کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے امریکہ کی طرف سے ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے ناقابل رسائی علاقوں تک پہنچ کر امداد کی فراہمی ممکن ہوئی تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیلاب ابھی تھما نہیں ہے اور مشرقی دریاؤں سے خطرات بدستور برقرار ہیں جس کی وجہ سے صورت حال اس وقت بھی بہت سنگین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے جس حد تک ممکن ہو اپنے وسائل پر انحصار کرنا چاہتا ہے لیکن ان کے مطابق آفت اس قدر بڑے پیمانے پر ہے کہ نقصانات، جس کا اندازہ لگانا ابھی باقی ہے، سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کی متواتر امداد درکار ہوگی۔