سندھ کی صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ صوبے میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 250 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں بارشوں اور حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 58 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ 20 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے ' پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)' کے حکام کے مطابق صوبے میں ہونے والی ہلاکتوں اور متاثرہ افراد میں اچانک اضافہ ضلع سانگھڑ کی درست صورتِ حال سامنے آنے کی وجہ سے ہوا ہے جہاں ہونے والی تباہی اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سانگھڑ، بدین، میرپورخاص اور بےنظیر آباد کے بعد حالیہ بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ضلع بن گیا ہے جہاں تین لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی زیرِ آب آگئی ہے۔ بارشوں سے ضلع کے 31 سو دیہات شدید متاثر ہوئے ہیں جس کے باعث متاثرہ افراد کی تعداد پونے پانچ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔
ضلع میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف محکمہ زراعت کے ایک اہلکار اویس قریشی نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ضلع کے تمام چھ تعلقوں کا بیشتر حصہ زیرِ آب آیا ہوا ہے جبکہ سیم نالوں میں طغیانی سے سیلابی پانی شہدادپور کے نواح اور سانگھڑ شہر میں داخل ہوگیا ہے۔
اہلکار نے بتایا کہ ضلع کے کم و بیش تمام سرکاری اسکولوں، خالی پلاٹوں ، اونچے مقامات اور ریلوے اسٹیشنوں پر سیلاب متاثرین نے پناہ لے رکھی ہے جنہیں خوراک اور بنیادی ضرورت کی دیگر اشیاء کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ ان کے بقول ضلع کے تمام بڑے سرکاری اسپتال بھی زیرِ آب آئے ہوئے ہیں جس کے باعث متاثرین کو طبی سہولیات کی فراہمی میں دشواری ہورہی ہے۔
محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر محمد حنیف کے مطابق سندھ میں رواں برس ہونے والی بارشیں معمول سے اڑھائی سو گنا زیادہ ہیں اور گزشتہ ایک صدی کے دوران صوبے میں مون سون کی اتنی بارش کبھی ریکارڈ نہیں کی گئی۔
ادھر سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں اور صوبائی محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل حفیظ میمن نے تصدیق کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ملیریا کے دو ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
'نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی' نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو ایک لاکھ سے زائد سیلاب متاثرین ملیریا، کالرا، جلدی اور آنکھوں کے امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں سرکاری حکام، غیر سرکاری تنظیمیں اور نجی فلاحی ادارے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ حکام کے مطابق صوبائی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ڈھائی ہزار سے زائد 'ریلیف کیمپس' قائم کیے ہیں جبکہ متاثرین میں 50 ہزار سے زائد خیمے بھی تقسیم کیے جاچکے ہیں۔