بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےاقوام متحدہ کی نمائندہ سٹیسی ملیسا نے بتایا کہ اب تک 40 لاکھ افراد کوعارضی چھت فراہم کی جا چکی ہے لیکن 70 لاکھ سیلاب زدگان ایسے ہیں جنہوں نے سرکاری عمارتوں اور تعلیمی اداروں میں پناہ لے رکھی ہے یا پھراپنی مدد آپ کے تحت ایسے خیموں میںزندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو انہیں سردی سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
انھوں نے کہا’’ امدادی ادارے متاثرین کو سردی سے محفوظ رکھنے والے خیموں کے علاوہ رہائش کا ایسا انتظام فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں جس میں ہر خاندان کو کم از کم ایک گرم کمرہ دستیاب ہو‘‘۔
امدادی اداروں نے متنبہ کیا ہے کہ خاص طور پر شمالی اور شمال مغربی پاکستان کے متاثرہ علاقوں میں درجہ حرارت آگے چل کر منفی 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر سکتا ہےجو متاثرین سیلاب کے لیے ایک انتہائی مشکل صورت حال ہوگی۔
سٹیسی نے بتایا کہ اقوام متحدہ نے سیلاب زدگان کے لیے تقریباً دو ارب ڈالر عالمی امداد کی جو اپپل کی تھی اب تک اس کا 45 فیصد حاصل ہوا ہےتاہم مزید امداد کی فراہمی سست روی کا شکار ہو رہی ہےجسے اگر بہتر نہ کیا گیا تو متاثرین کو خوراک، صاف پانی ،چھت اور طبی امداد فراہم کرنے کے اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔
صحت کی صورت حال کے بارے میں ترجمان کا کہنا تھا کہ اب تک 65 لاکھ سے زائد متاثرین کو طبی امداد فراہم کی جا چکی ہے جب کہ 80 لاکھ کو معالج کی مشاورت حاصل ہے۔ لیکن دوسری طرف متاثرین میں ڈینگی اور ملیریا کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ اسہال اور جلدی امراض سے بھی متاثر ہوئے ہیں جب کہ صرف سانس کی بیماریوں میںمبتلا ہونے والوں کی تعداد دس لاکھ ہے۔
اقوام متحدہ کے عہدیداروں کے مطابق 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزانہ پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
خوراک اور زراعت کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے ترولس بریکلے نے بتایا کہ ان کے ادارے نے صوبہ خیبر پختون خواہ میں متاثرہ کاشتکاروں کو گندم کے بیچ کی فراہمی مکمل کر لی ہے، پنجاب میں اس کی فراہمی جاری ہے، بلوچستان میں جلد آغاز کر دیا جائے گا جبکہ سندھ کو گندم کے بیچ فراہم کرنے میں فنڈز کی کمی کے علاوہ ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ بہت سے علاقوں میں اب بھی سیلابی پانی کھڑا ہے اور وہاں فصل کاشت نہیں ہو سکتی۔
آکسفیم کی نمائندہ کیرولین گلک نے کہا کہ صوبہ سندھ کے کئی علاقوں میں کم ازکم دس لاکھ متاثرین بے گھر ہیں اور سیلابی پانی بدستور موجود ہونے کی وجہ توقع ہے کہ انہیں آئندہ تین سے چھے ماہ تک عارضی کمپوں میں ہی رہنا پڑ سکتا ہے۔