پاکستانی عہدیداروں نے سیلاب سے متاثرہ بعض علاقوں میں آلودہ پانی پینے سے پیٹ کی بیماریاں پھوٹنے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے سرکاری اداروں کو متحرک کردیا گیا ہے۔ ان عہدیداروں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اس سے ہونے والی اموات کی تعداد سیلاب سے ہونے والی اب تک لگ بھگ 1600ہلاکتوں سے زیادہ ہوسکتی ہیں۔
پانی کی تحقیق کے لیے قائم سرکاری ادارے کے سربراہ ڈاکٹر اسلم طاہر نے بتایا ہے کہ امریکی ادارہ برائے امداد (یوایس ایڈ) کے تعاون سے ہنگامی بنیادوں پر ایک منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت اس ادارے کی طرف سے فراہم کردہ پانی صاف کرنے کے چار پلانٹس کی نوشہرہ اور پشاور میں تنصیب کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سائنس فاؤنڈیشن، پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسزاور پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے سربراہان کا کہنا تھا کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خواہ کے 17شہروں میں خصوصی ٹیمیں روانہ کی جاچکی ہیں جو ان علاقوں میں روزانہ چھ لاکھ افراد کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کلورین سے صاف کیا گیا پانی مہیا کررہی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ جن علاقوں میں ٹیمیں بھیجی گئی ہیں وہاں 80سے 100فیصد پینے کا پانی آلودہ ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر اسلم طاہر کے مطابق جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں سیلاب یا زلزلے سے پانی اس قدر آلودہ ہوجاتا ہے کہ اسے پینے سے ہونے والی اموات کا خطرہ قدرتی آفت میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ ہوتا ہے۔
انھوں نے سیلاب زدگان پر زور دیا ہے کہ وہ گندا پانی پینے سے ہر ممکن حد تک گریز کریں اور اپنے علاقوں میں کام کرنے والی خصوصی ٹیموں سے یا اپنے طور پر کلورین کی گولیاں حاصل کرکے پانی میں ملائیں جس سے یہ بہت حد تک پینے کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔