ماحول اور موسمیات سے متعلق پاکستانی حکومت کے مشیر قمر زمان چودھری نے متنبہ کیا ہے کہ غیر معمولی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے مرکز اور صوبوں کی سطح پر اگر قبل از وقت منصوبہ بندی نا کی گئی تو پاکستان خوراک کے بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں تیار کی گئی اپنی جائزہ رپورٹ میں ڈاکٹر قمر زمان نے وفاقی و صوبائی حکومتوں پر ملک میں خوراک کے ذخائر بڑھانے اور گندم کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات پر زور دیا ہے ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے رپورٹ کے مندرجات بیان کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ماحول میں غیر فطری تبدیلیوں کے باعث خوراک پیدا کرنے والے بڑے زرعی ممالک بشمول امریکہ، آسٹریلیا اور روس بھی متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی کا قوی امکان ہے۔
’’اس صورت حال کا اثر یقیناً ملک کے اندر خوراک کے جو ذخائر ہیں ان پر بھی پڑے گا۔ اس لیے احتیاط کے طورپر یہ مشاورتی رپورٹ جاری کی گئی کہ متعلقہ حکام اس سلسلے میں قبل از وقت فیصلہ کر سکیں۔ اسمگلنگ روکنے کے لیے مناسب کارروائی کی جائے اور جو (خوراک کے) ذخائر موجود ہیں ان کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔‘‘
قمر زمان چودھری نے کہا کہ ملک میں آبی ذخائر میں بھی پانی کی سطح تشویشناک حد تک کم ہے جس سے گندم کی آئندہ فصل بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
’’موسم سرما کی فصلیں ہوں گی، خاص طور پر ہماری سب سے اہم فصل گندم کی ہے اگرچہ اس کے لیے زیادہ پانی درکار نہیں ہوتا لیکن اگر ڈیموں میں فصلوں کے لیے پانی دستیاب نہیں ہو گا تو اس کے اثرات ہماری گندم کی آئندہ فصل بھی آ سکتے ہیں۔‘‘
عالمی ادارہ خوراک ’ڈبلیو ایف پی‘ کے عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ملک کی لگ بھگ نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ملک میں پیدا ہونے والی اضافی گندم کے ذخائر ملک میں موجود ہیں۔ قمر زمان چودھری بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اجناس کے موجودہ ذخائر کے موثر استعمال اور منصوبہ بندی سے ممکنہ غذائی بحران سے بچا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں تیار کی گئی اپنی جائزہ رپورٹ میں ڈاکٹر قمر زمان نے وفاقی و صوبائی حکومتوں پر ملک میں خوراک کے ذخائر بڑھانے اور گندم کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات پر زور دیا ہے ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے رپورٹ کے مندرجات بیان کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ماحول میں غیر فطری تبدیلیوں کے باعث خوراک پیدا کرنے والے بڑے زرعی ممالک بشمول امریکہ، آسٹریلیا اور روس بھی متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی کا قوی امکان ہے۔
’’اس صورت حال کا اثر یقیناً ملک کے اندر خوراک کے جو ذخائر ہیں ان پر بھی پڑے گا۔ اس لیے احتیاط کے طورپر یہ مشاورتی رپورٹ جاری کی گئی کہ متعلقہ حکام اس سلسلے میں قبل از وقت فیصلہ کر سکیں۔ اسمگلنگ روکنے کے لیے مناسب کارروائی کی جائے اور جو (خوراک کے) ذخائر موجود ہیں ان کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔‘‘
قمر زمان چودھری نے کہا کہ ملک میں آبی ذخائر میں بھی پانی کی سطح تشویشناک حد تک کم ہے جس سے گندم کی آئندہ فصل بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
’’موسم سرما کی فصلیں ہوں گی، خاص طور پر ہماری سب سے اہم فصل گندم کی ہے اگرچہ اس کے لیے زیادہ پانی درکار نہیں ہوتا لیکن اگر ڈیموں میں فصلوں کے لیے پانی دستیاب نہیں ہو گا تو اس کے اثرات ہماری گندم کی آئندہ فصل بھی آ سکتے ہیں۔‘‘
عالمی ادارہ خوراک ’ڈبلیو ایف پی‘ کے عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ملک کی لگ بھگ نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ملک میں پیدا ہونے والی اضافی گندم کے ذخائر ملک میں موجود ہیں۔ قمر زمان چودھری بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اجناس کے موجودہ ذخائر کے موثر استعمال اور منصوبہ بندی سے ممکنہ غذائی بحران سے بچا جا سکتا ہے۔