اسلام آباد —
شماریات کے سرکاری ادارے کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان سے پھلوں کی برآمدات میں گزشتہ برس کی نسبت تقریباً 45 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس مد میں نو کروڑ بیس لاکھ ڈالر زرمبادلہ حاصل ہوا۔
گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی سے ستمبر کے دوران یہ آمدن چھ کروڑ 36 لاکھ تھی۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ماہانہ بنیاد پر بھی پھلوں کی برآمدات میں 19.6 فیصد اضافہ ہوا۔
تاہم زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والے پھلوں اور سبزیوں کے شعبے میں انتظامات کو بہتر بنا کر برآمدات میں اضافہ اور زرمبادلہ کو ایک ارب ڈالر سالانہ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں زرعی شعبے کی ایک نمائندہ تنظیم ایگری فورم پاکستان کے عہدیدار ابراہیم مغل نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک میں سالانہ 70 لاکھ ٹن پھل پیدا ہوتے ہیں جن میں 40 سے 50 لاکھ ٹن صرف آم اور کینو کی پیداوار پر مشتمل ہے۔
’’ اگر آج بھی صحیح طرح سے انتظامات کیے جائیں تو پاکستان سے صرف کینو اور آم کی برآمدات سے سال میں ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔۔۔ آم کے علاوہ اور بھی پھل جن کی برآمدات بڑھانے کی بات ہونی چاہیے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ 25 لاکھ ٹن پھل اور 30 لاکھ ٹن سبزیاں ضائع ہو جاتی ہیں اور اس شعبے پر خصوصی توجہ دے کر اور انتظامات کو بہتر بنا کر کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
’’سبزیوں میں ہمارے ملک کا آلو دنیا میں بہترین کوالٹی کا مانا جاتا ہے لیکن اس کی درجہ بندی، اس کی صفائی اس کی پیکنگ اس کی مارکیٹنگ اتنی ناقص ہوتی ہے کہ یہ بیرون ملک بہت کم قیمت میں فروخت ہوتا ہے۔‘‘
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر نے وائس آف امریکہ گفتگو میں کہا کہ حکومت زرعی شعبے اور اس کی برآمدات سے متعلق غافل نہیں۔
’’ حکومت بہت سنجیدگی سے برآمدات کے معاملے پر کام کر رہی ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی برآمدات اس کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔‘‘
حالیہ دنوں میں آلو اور پیاز خصوصاً ٹماٹر کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں آلو 85 روپے جب کہ ٹماٹر ایک سو سے 120 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔
ابراہیم مغل کے خیال میں اس غیر حقیقت پسندانہ مہنگائی کی وجہ بھی حکومت کی طرف سے اس شعبے میں عدم دلچسپی ہے۔
’’کسانوں سے کم قیمت پر سبزیاں خرید کر ذخیرہ کر لی جاتی ہیں اور پھر مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہے۔ اس پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ کسان کو تو پیسے کم ملتے ہیں اور صارف کو کئی گنا مہنگی چیز مل رہی ہے۔‘‘
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ براہ راست اس شعبے سے وابستہ ہے۔ حالیہ برسوں میں شدید بارشوں اور تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے بھی یہ شعبہ شدید متاثر ہوچکا ہے لیکن زرعی ماہرین کا اصرار ہے کہ اس شعبے میں موجود بدانتظامی کو ختم کرتے ہوئے بیرون ملک پاکستانی اجناس کو بہتر اور صحیح انداز میں متعارف کروایا جائے تو یہ ملکی معیشت کی بحالی اور استحکام میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی سے ستمبر کے دوران یہ آمدن چھ کروڑ 36 لاکھ تھی۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ماہانہ بنیاد پر بھی پھلوں کی برآمدات میں 19.6 فیصد اضافہ ہوا۔
تاہم زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والے پھلوں اور سبزیوں کے شعبے میں انتظامات کو بہتر بنا کر برآمدات میں اضافہ اور زرمبادلہ کو ایک ارب ڈالر سالانہ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں زرعی شعبے کی ایک نمائندہ تنظیم ایگری فورم پاکستان کے عہدیدار ابراہیم مغل نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک میں سالانہ 70 لاکھ ٹن پھل پیدا ہوتے ہیں جن میں 40 سے 50 لاکھ ٹن صرف آم اور کینو کی پیداوار پر مشتمل ہے۔
’’ اگر آج بھی صحیح طرح سے انتظامات کیے جائیں تو پاکستان سے صرف کینو اور آم کی برآمدات سے سال میں ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔۔۔ آم کے علاوہ اور بھی پھل جن کی برآمدات بڑھانے کی بات ہونی چاہیے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ 25 لاکھ ٹن پھل اور 30 لاکھ ٹن سبزیاں ضائع ہو جاتی ہیں اور اس شعبے پر خصوصی توجہ دے کر اور انتظامات کو بہتر بنا کر کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
’’سبزیوں میں ہمارے ملک کا آلو دنیا میں بہترین کوالٹی کا مانا جاتا ہے لیکن اس کی درجہ بندی، اس کی صفائی اس کی پیکنگ اس کی مارکیٹنگ اتنی ناقص ہوتی ہے کہ یہ بیرون ملک بہت کم قیمت میں فروخت ہوتا ہے۔‘‘
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر نے وائس آف امریکہ گفتگو میں کہا کہ حکومت زرعی شعبے اور اس کی برآمدات سے متعلق غافل نہیں۔
’’ حکومت بہت سنجیدگی سے برآمدات کے معاملے پر کام کر رہی ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی برآمدات اس کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔‘‘
حالیہ دنوں میں آلو اور پیاز خصوصاً ٹماٹر کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں آلو 85 روپے جب کہ ٹماٹر ایک سو سے 120 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔
ابراہیم مغل کے خیال میں اس غیر حقیقت پسندانہ مہنگائی کی وجہ بھی حکومت کی طرف سے اس شعبے میں عدم دلچسپی ہے۔
’’کسانوں سے کم قیمت پر سبزیاں خرید کر ذخیرہ کر لی جاتی ہیں اور پھر مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہے۔ اس پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ کسان کو تو پیسے کم ملتے ہیں اور صارف کو کئی گنا مہنگی چیز مل رہی ہے۔‘‘
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ براہ راست اس شعبے سے وابستہ ہے۔ حالیہ برسوں میں شدید بارشوں اور تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے بھی یہ شعبہ شدید متاثر ہوچکا ہے لیکن زرعی ماہرین کا اصرار ہے کہ اس شعبے میں موجود بدانتظامی کو ختم کرتے ہوئے بیرون ملک پاکستانی اجناس کو بہتر اور صحیح انداز میں متعارف کروایا جائے تو یہ ملکی معیشت کی بحالی اور استحکام میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔