جب سے دسمبر شروع ہوا ہے پاکستان کی سڑکوں پریکے بعد دیگرے درد ناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بڑا شہر ہو یا چھوٹا، معمول کے مطابق ،وقت کی دوڑ سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہزاروں گاڑیوں کا ایک سیل رواں ، خود سے گتھم گتھا ہوتا ، ایک سرے سے دوسرے سرے تک بہتا نظرآتا ہے کہ پھر اچانک ایک زوردار دھماکہ سنائی دیتا ہے ۔ اور، یکایک ہر چیز اپنی جگہ تھم سی جاتی ہے ۔
اِس سکوت کو توڑتی ہیں تو ایمبولینس کی آوازیں ،جو اپنے پیچھے درد اور آہ و بقا چھوڑ جاتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی گاڑی کا گیس سلینڈر زور دار دھماکے سے پھٹا اور درجن یا نصف درجن انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ دسمبر کا آج 23واں دن ہے مگر ان 23 دنوں میں پاکستان کے 5شہروں میں سلینڈر پھٹنے کے 5 مختلف واقعات رونما ہوچکے ہیں، جِن میں 51قیمتی جانوں کا ذیاں ہوا اور 64افراد زخمی ہوگئے۔ ان واقعات کی مزید تفصیلات مضمون کے آخر میں درج ہیں۔
یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو وائس آف امریکہ کے نمائندے نے واقعات و حادثات کی نسبت سے اکھٹا کئے ہیں۔ یقیناً ، دسمبر کے علاوہ رواں سال کے دوسرے مہینوں میں بھی اس قسم کے واقعات ہوچکے ہیں جن میں کئی درجن افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ملیں۔
پاکستان میں سی این جی گیس سلنڈرز کا استعمال آٹھ سال پہلے شروع ہوا تھا ۔ پیٹرول کے مقابلے میں کمپریسڈ نیچرل گیس یعنی سی این جی انتہائی سستی تھی جس کے سبب دیکھتے ہی دیکھتے لوگ سی این جی استعمال کرنے کو ترجیح دینے لگا ۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال میں اس قدر تیزی آئی کہ جن گاڑیوں میں سی این جی کٹس نہیں لگی ہوئی تھیں لوگوں نے ان میں راتوں رات سی این جی کٹس نصب کرالیں۔
حد تو یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی پیٹرول سے سی این جی پر منتقل ہوگئی۔ اس وقت ملک کی ستر فیصد سے زائد گاڑیاں سی این جی پر چلتی ہیں ۔ لیکن کس طرح ؟
کراچی کے ایک جہاندیدہ شہری انور حسین کا کہنا ہے کہ ”سڑک کنارے ڈیرہ جمائے ”طوطا استاد“ جیسے مکینک اپنی مہارت کے جوہر دکھاتے ہوئے کم پیسوں میں سلینڈر فٹ کر دیتے ہیں اور گاڑی مالکان بھی اس چیز سے بے خبر رہتے ہیں کہ سلینڈر کی فٹنگ میں کیانقص رہ گیا ہے اور کیا نہیں ۔ نتیجہ وہی نکلتا ہے جو اوپر درج ہے یعنی ناگہانی اموات ۔
سی این جی گاڑی کی مالک اور کراچی ہی کی شہری آصفہ ادریس کا کہنا ہے ”ناقص سی این جی فٹنگ کے ذمہ دار صرف کاریگر ہی نہیں بلکہ گاڑی مالکان بھی ہیں جو تھوڑے سے پیسوں کی خاطر اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنے سے بھی نہیں چوکتے۔ “
وی او اے کے نمائندے سے اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے ہوئے وہ شکایتی انداز میں مزید کہتی ہیں ”یہاں سب جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ سب لوگ ’دھکا اسٹارٹ‘ ہیں ۔ نہ لوگ سی این جی سلینڈرز کو درست طریقے سے لگواتے ہیں اور نہ ہر پانچ سال بعد انہیں چیکنگ کرانے پر آمادہ ہوتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ ارباب اختیار کو بھی عملی اقدامات کرنے کی فرصت۔ نہیں ۔اس واقعات میں کمی اسی صورت میں آسکتی ہے جب ارباب اختیار سخت قانون بنائیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات میں اشتہارات دے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سی این جی سلنڈرز لگانا قانوناً جرم ہے۔ “
دسمبر 2011ء میں سلنڈر پھٹنے کے واقعات کی تفصیل
20 دسمبر : سیٹھارجہ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہنگورجہ سے سیٹھارجہ آنیوالی ویگن میں گیس سلنڈر پھٹنے سے آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک اور 10زخمی ہوگئے ۔
21 دسمبر : گوجرانوالہ سے لاہور جانے والی مسافر وین کا گیس سلنڈر پھٹنے سے 5 مسافرہلاک ہوگئے جبکہ12 افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔
18 دسمبر: فیصل آباد کے علاقے کھرڑیانوالہ میں مسافر وین کا گیس سلنڈر پھٹنے سے 4 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔
10 دسمبر : وہاڑی کی ایک ویگن کا گیس سلنڈر پھٹنے سے 16 مسافر زندہ جل گئے۔واقعہ ٹبہ سلطان پور کے نزدیک مسافر ویگن اور منی ٹرک میں تصادم کے نتیجے میں گیس سلنڈر پھٹنے سے پیش آیا ۔ حادثے میں 14افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔
07 دسمبر : مٹیاری کے قریب قومی شاہرہ پر المناک حادثے سے مسافر وین کا سلینڈر پھٹنے سے 7بچوں سمیت 13 افرادہلاک اور 11 زخمی ہوگئے ۔
مقبول ترین
1