سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف حکومت کی طرف سے ریفرنس دائر کیے جانے کے معاملے پر وزارت قانون اور ایسٹ ریکوری یونٹ کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی غیر ملکی جائیدادوں کی اطلاع ملی اسی لیے کارروائی کی اور سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا۔
ان دو ریفرنسز سے متعلق حکومت کی جانب سے خاموشی کے بعد اب انہیں تسلیم کر لیا گیا ہے اور وزارت قانون اور اے آر یو (ایسٹ ریکوری یونٹ) نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں ریفرنس دائر کیے جانے کا دفاع کیا گیا ہے۔
ان ریفرنسز کی وجہ سے حکومت پر اس وقت شدید دباؤ ہے کیونکہ ملک بھر کی بار کونسلز نے ججز کے خلاف ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور واپس نہ لینے کی صورت میں اجتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔
وزارت قانون کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کا کھوج لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور کالا دھن واپس لانے کے لیے وزیر اعظم نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ تشکیل دیا ہے جس کے تحت یہ یونٹ بیرون ملک اثاثوں کی شکایت ملنے پر کارروائی کرنے کا پابند ہے۔
ایسٹ ریکوری یونٹ نے پاکستانیوں کی ملک سے باہر جائیدادیں پکڑی ہیں اور جائیدادوں کی تفصیلات ان کے متعلقہ محکموں کو بھجوائی گئی ہیں۔ اس یونٹ کو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی غیر ملکی جائیداد کی بھی اطلاع ملی جس پر ریکوری یونٹ نے ججز کی غیر ملکی جائیداد کی چھان بین کی اور ریکوری یونٹ کو جائیدادوں کی رجسٹری شدہ نقول مل گئیں۔ معلومات ریفرنس کی صورت میں منظوری کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائی گئی ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ریفرنس دائر کر کے صدر اور وزیراعظم نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے۔ وزارت قانون کے ترجمان نے کہا ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کوئی نیا ریفرنس دائر نہیں ہو رہا۔ کچھ اخبارات میں چھپنے والی خبروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ من گھڑت خبروں کے ذریعے متنازع صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اب سے کچھ روز قبل تحریک انصاف کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 2 ججز کے خلاف بیرون ملک جائیدادیں رکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزام ہے کہ ان کی اہلیہ نے بیرون ملک جائیداد خریدی جو ان کے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیض آباد دھرنا کیس سمیت کئی اہم کیسز میں اپنے سخت ریمارکس کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں اور انہوں نے حساس اداروں کے خلاف بھی سخت ریمارکس اور فیصلے دیے۔ فیض آباد دھرنا کیس میں بھی انہوں نے باوردی افراد کی مداخلت پر شدید تنقید کی تھی اور فیصلہ میں حکم دیا تھا کہ فوجی اداروں کے سربراہان ایسی مداخلت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔
ان ریفرنسز کی ابتدائی سماعت کے لیے 14 جون کی تاریخ مقرر کی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن نے ملک بھر سے وکلا کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی ہے۔