رسائی کے لنکس

سردار لطیف کھوسہ کی تقرری ذومعنی ہوگئی


سردار لطیف کھوسہ کی تقرری ذومعنی ہوگئی
سردار لطیف کھوسہ کی تقرری ذومعنی ہوگئی

سردار لطیف کھوسہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نئے گورنر مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ان کے خلاف تنقیدی محاذ کھل گئے ہیں یہاں تک کہ سیاسی حلقوں میں اس تقرری کو ذومعنی انداز میں دیکھا جارہا ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یا تو پیپلز پارٹی نے سوچ سمجھ کرفیصلہ نہیں کیا یا واقعی 'سوچ سمجھ کر' فیصلہ کیا ہے۔

اگرچہ سیاسی حلقوں اور میڈیا میں اتوار کے روز ہی یہ اشارے ملنے لگے تھے کہ لطیف کھوسہ نئے گورنر پنجاب ہوں گے تاہم منگل کی شام مقامی میڈیا پر سردار لطیف کھوسہ کی تقرری حیران کن اندا ز میں دیکھی گئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وزیر اعظم سے لطیف کھوسہ کے خراب تعلقات بتائی جارہی ہے ۔ اتوارکو صدر آصف علی زرداری نے لطیف کھوسہ کی تقرری سے پہلے وزیر اعظم سے گلے شکوے دور کرنے کے لئے کہا تھا۔ صدر کی ہدایت پر لطیف کھوسہ نے وزیراعظم سے ملاقات بھی کی ۔ عین ممکن ہے کہ وزیر اعظم نے صدر کی مرضی بھانپ کر لطیف کھوسہ کو کچھ نہ کہا ہو، تاہم سیاسی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی تاریخ کے سب سے مضبوط وزیر اعظم کی حیثیت سے اس تقرری پر اعتراض کرتے تو آج صورتحال دوسری ہوتی۔

سردار لطیف کھوسہ کوگزشتہ سال فروری میں وزیرِ اعظم کا مشیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی مقرر کیا گیا لیکن چھ مہینے بھی نہ گزرے تھے کہ وزیرِ اعظم گیلانی کو اختیارات سے تجاوز اور کرپشن کے الزامات کے سبب لطیف کھوسہ کو ان کے عہدے سے ہٹا نا پڑا۔ اس واقعے کے بعد وزیراعظم اور سردار لطیف کھوسہ کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوگئی تھی۔

سردار لطیف کھوسہ کو اٹارنی جنرل کے عہدے سے بھی کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات پر ہٹایا گیا تھا ۔ ان الزامات کے حوالے سے ان پر تاحال مقدمہ چل رہا ہے ۔ اس کے باوجود ان کی گورنر کے عہدے پر تقرری مبصرین کے نزدیک حیران کن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی جو پہلے ہی کرپشن کے حوالے سے سخت تنقید کا باعث تھی اس نے لطیف کھوسہ کی تقرری کے بعد تنقیدی توپوں کا رخ ایک مرتبہ پھراپنی ہی جانب کرلیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی مخالف جماعت مسلم لیگ (ن) نے سردار لطیف کھوسہ کی تقرری کے حوالے سے'غلطی' کو بھانپ لیا ہے لیکن اگر واقعی یہ غلطی ہے تو مسلم لیگ نواز کو ہی اس کا سب سے بڑا فائدہ پہنچے گا۔ سیاسی حلقوں کے نزدیک حالات کا تقاضا یہ تھا کہ کوئی ایسا شخص گورنر بنایا جاتا جو پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ڈھیلی ہوتی گرفت کو مضبوط کرنے کا باعث ہوتا کیوں کہ پی پی کو وفاق سے زیادہ پنجاب میں مضبوط ترین حزب اختلاف کا 'سامنا'ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ سامنا مقتول سلمان تاثیر کے لئے بھی مشکل تھا خصوصا ایسی صورت میں جبکہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ پنجاب میں ہی موجود ہیں۔

XS
SM
MD
LG