ایک تازہ مطالعاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں مردہ بچوں کی پیدائش کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ریکارڈ کی گئی ہے۔
طبی جریدے "دی لانسٹ" نے منگل کو جاری کردہ مطالعے میں بتایا کہ اس معاملے میں 186 ملکوں کا جائزہ لیا گیا اور پاکستان میں یہ شرح ایک ہزار بچوں میں سے 43.1 تھی جو کہ نائیجیریا، چاڈ، نائیجر، گنی بساؤ، صومالیہ، وسطی افریقی جمہوریہ، ٹوگو اور مالی سے بھی زیادہ ہے۔
جریدے کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز 7200 بچے مردہ حالت میں پیدا ہوتے ہیں اور سال میں تقریباً 26 لاکھ ایسی پیدائش ہوتی ہے۔
ان میں سے لگ بھگ 98 فیصد مردہ بچوں کی پیدائش کم اور متوسط آمدن والے ممالک میں ہوتی ہے۔
جریدے کے مدیران رچرڈ ہورٹن اور اوڈانی سماراسکیرا نے اس مطالعے کے تناظر میں کہا کہ "خوفناک صورتحال یہ ہے کہ تقریباً 13 لاکھ بچوں کی اموات دوران زچگی ہوتی ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ "زچگی سے قبل بچے کا زندہ ہونا اور دوران زچگی اور صرف چند گھنٹوں میں اس کا ان وجوہات کی بنا پر مر جانا جن سے بچا جا سکتا ہے، عالمی تناظر میں صحت کا ایک اسکینڈل ہونا چاہیئے۔"
پاکستان میں شعبہ صحت ویسے بھی سہولتوں اور سرکاری توجہ کی کمی کا شکار رہا ہے لیکن حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ صحت عامہ کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے متعدد اقدام کر رہے ہیں۔
حکمران مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی مائزہ حمید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔
کوشش تو کر رہے ہیں کہ لوگوں کو صحت عامہ کی سہولت سرکاری اور نجی اسپتالوں میں (مفت) ملے لیکن مردہ بچوں کی پیدائش (کے معاملے) پر ایک علیحدہ سے قانون سازی اور علیحدہ سے پالیسی ہونی چاہیے۔"
تاہم ماں اور بچے کی صحت سے متعلق ایک عرصے سے غیر سرکاری شعبے میں کام کرنے والی ڈاکٹر نبیلہ اس تازہ رپورٹ کو پاکستان کے حوالے سے تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ صرف پالیسیاں بنانے سے ہی اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
"یہ بہت انتباہی صورتحال ہے دیکھیں بڑی بڑی پالیسیاں بنانے سے تو بچے نہیں بچ سکتے، بچے تو اسی صورت میں گے جب انھیں وہ صحت کی سہولت مل سکے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ زچگی کے وقت ہوتا جہاں اکثر غیر تربیت یافتہ دائیاں زچگی کرتی ہیں۔
"سٹل برتھ میں بچہ تو زندہ ہی پیدا ہوتا ہے لیکن کیونکہ اس نے ابھی پورا سانس نہیں لیا ہوتا اور ان (دائیوں) کے پاس صلاحیت یا استعداد نہیں ہوتی کہ وہ بچے کا سانس دلانے کے لیے مناسب طریقہ استعمال کریں تو اس دوران بچے کی موت واقع ہو جاتی ہے۔"
ڈاکٹر نبیلہ نے کہا کہ اس مسئلے پر اسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے جب صحت عامہ کے مراکز میں پوری طرح مناسب سامان موجود ہو اور حاملہ خواتین کو زچگی کے لیے یہاں لایا جائے نہ کہ غیر تربیت یافتہ دائیوں سے استفادہ کیا جائے۔
مطالعے کے دوران ان بچوں کی ان موات کا شمار کیا گیا جو حمل کے سات ماہ کے بعد واقع ہوئیں۔ اس سے قبل ہونے والی اموات اسقاط حمل کے زمرے میں آتی ہیں۔
مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے مردہ بچوں کی شرح میں 14 فیصد وہ کیسز ہیں جن میں حمل کا طویل ہونا یعنی مقررہ ایام کے کئی روز بچے کی پیدائش ہونا شامل ہیں۔
اس ضمن میں ماں کی صحت کا بھی بڑا عمل دخل بتایا گیا کہ جس میں حاملہ عورت کے طرز زندگی اس کی غذائیت یا اسے لاحق امراض شامل ہیں۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ اس مطالعے میں ایک اور جانب بھی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ غریب اور امیر ملکوں کے فرق کو ظاہر کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کسی امیر ملک میں کسی غریب خاتون کے ہاں مردہ بچے کی پیدائش کا خطرہ دگنا ہوتا ہے۔
دنیا میں صحت کے سب سے بڑے پالیسی ساز ادارے "عالمی صحت اسمبلی" نے یہ ہدف مقرر کیا تھا کہ 2035ء تک مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح کو ایک ہزار میں سے دس یا اس سے بھی کم کی شرح پر لایا جائے گا۔