رسائی کے لنکس

پاکستان میں یتیم بچوں کی کفالت کا ایک منفرد ادارہ ۔ حسن فاؤنڈیشن


کہتے ہیں کہ غم جتنا بڑا اور شدید ہو اسےجھیلنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اتنی ہی شدت کی اور اتنی ہی بڑی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ کہ غم جتنا مستقل ہو اس کے مداوے کےلیے اتنی ہی مستقل کوشش درکار ہوتی ہے۔ اس بات کی صداقت کا اندازہ مشی گن کی اس پاکستانی امریکی ماں اور بچوں کے امراض کی ایک ماہر ڈاکٹر شاہدہ خان اور ان کے کارڈیالوجسٹ شوہر ڈاکٹر مختار خان کو اس وقت ہوا جب وہ اپنے جواں سال بیٹے کی اچانک وفات کا انتہائی شدید صدمہ برداشت کرنے کی کسی بھی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔

اپنے بیٹے کو زندہ اور جیتا جاگتا دیکھنے کی ان کی تڑپ تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اور پھر اس تڑپ کو ختم کرنے اور اپنے بیٹے کے نام کو زندہ رکھنے کے جذبے کوایک خوبصورت،بھر پور اور ان تھک مشن میں تبدیل کر دیا۔

انہوں نے اپنے بیٹے حسن خان کے نام پر ایک ادارہ قائم کیا حسن فاؤنڈیشن، جس کے تحت بہت سی دوسری فلاحی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دو بڑے مشن شروع کئے گئے ۔ ان بچوں کی کفالت کرنا جو اپنے والد یا والدین سے محروم ہو گئے ہوں اور تھر کے ان ریگستانی باشندوں کو ان کے گھروں کے قریب پانی کی فراہمی کے لیے ہینڈ پمپس لگو ا کر دینا جن کی خواتین اور بچیاں صدیوں سے سخت گرمیوں اور ٹھٹھرتی سردیوں میں ننگے پاؤں میلو ں دور سے بھاری مٹکے سروں پر رکھ کر پانی لانے کی مشقت جھیل رہی ہیں۔

ڈاکٹرمحتار خان تھر میں اپنے ادارے کی جانب سے لگائے گئے ہینڈ پمپ کے ساتھ
ڈاکٹرمحتار خان تھر میں اپنے ادارے کی جانب سے لگائے گئے ہینڈ پمپ کے ساتھ

گزشتہ دنوں وائس آف امریکہ کے پروگرام ہر دم رواں ہے زندگی میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہدہ خان نے اپنے ادارے کے پراجیکٹس پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ حسن فاؤنڈیشن نے اپنا مشن پشاور کے ایک یتیم خانے ایس ا و ایس کے بچوں کی کفالت سے شروع کیا اور اس میں ایک گھر خرید کر اس میں رہنے والے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی ۔ لیکن بعد میں انہوں نے محسوس کیا کہ ایسے اداروں کو تو حکومت اور دوسرے اداروں سے فنڈنگ مل جاتی ہے لیکن بہت سے ایسے بچے جو اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی والدہ یا عزیزوں کے ساتھ گھروں میں رہتے ہیں ، ان کی مدد کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں اور اکثر اوقات انہیں مالی مشکلات کی وجہ سے اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ ادارے نے اپنی فلاحی سر گرمیوں کا رخ ایسے بچوں کی جانب موڑا اور اس وقت وہ ایسے 200 بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھا کر انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔

بچوں کے لیے تعمیر کیا جانے والا ایک سکول
بچوں کے لیے تعمیر کیا جانے والا ایک سکول

شاہدہ خان نے کہا کہ حسن فاؤنڈیشن نے پشاور اور لاہور کے یتیم خانوں کی مدد کی اور لاہور میں ایک یتیم خانے دار الشفقت کو مکمل طور پر رینو ویٹ کروایا۔ جب کہ وہ اب بھی گاہے گاہے ان کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے اپنے ادارے کی جانب سے دیر میں طالبان کے ہاتھوں تباہ ہونے والے دو اسکولوں اور ایک مڈل اسکول کی دوبارہ تعمیر میں اپنے ادارے کی کوشش کا بھی تذکرہ کیا اور ان بچوں کے لیے ادارے کی مدد کا بھی ذکر کیا جن کے والد خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کا نشانہ بنے یا ملٹری آپریشنز کے دوران ہلاک ہوئے۔

تھر میں اپنے ہینڈ پمپس کے پراجیکٹس کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہدہ خان نے کہا کہ ان کا ادارہ گزشتہ دس گیارہ برسوں میں تھر کے باسیوں کو ان کے گھروں کے قریب 2100 سے زیادہ ہینڈ پمپس نصب کر کے دے چکا ہے اور تقریباً پچپن لاکھ روپے کی لاگت سے نصب ہونے والے یہ پمپس ادارہ بالکل مفت فراہم کر رہا ہے۔ جب کہ وہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی ایک ہزار سے زیادہ ہینڈ پمپس ایسے افراد کو ان کے گھروں کے قریب نصب کر کے دے چکا ہے جنہیں یہ سہولت میسر نہ تھی۔

ڈاکٹر شاہدہ خان
ڈاکٹر شاہدہ خان

ڈاکٹر شاہدہ خان نے کہا کہ ان پمپس کی وجہ سے تھر کے دیہاتیوں کو زندگی میں پہلی بار اپنے گھروں کے نزدیک صاف پانی دستیاب ہوا ہے جو ان کی روز مرہ کی زندگی میں بہت سی آسانیاں لانے کے ساتھ ساتھ انہیں بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔

شاہدہ خان نے کہا کہ ان کے ادارے کی زیادہ تر فنڈنگ امریکہ سے ہوتی ہے لیکن پانی کے پراجیکٹ کے لیے پاکستانی بھی حصہ ڈالتے ہیں۔

پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر شاہدہ خان نے، جو اپنی ان تمام تر مصروفیات کے باوجود اپنے بیٹے کی یاد کو ایک پل بھی دل سے جدا نہیں کر پا رہیں یتیم بچوں سے ملاقات کے اپنے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے سننے والی ماؤں سےایک بہت جذباتی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر مائیں اپنی روز مرہ کی مصروفیات سے خاص طور پر رمضان یا عید کے موقع پر کچھ وقت نکال کر یتیم خانوں میں مقیم والدین سے محروم ان چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کے پاس جا ئیں ، انہیں گلے سے لگائیں ، ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں اور انہیں وہ پیار دینے کی کوشش کریں جو ان کی مائیں اگر زندہ ہوتیں تو انہیں دیتیں، تو یہ ان بچوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہو گی ۔

XS
SM
MD
LG