پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف نے ’ہندو میرج ایکٹ 2015‘ کے مسودہ قانون کو منظور کر لیا ہے۔ جس کے بعد اب قانون سازی کے لیے اس مسودے کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے قانون ساز رمیش کمار وانکوانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس بل کے تحت ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی پر پابندی ہو گی۔
اُنھوں نے کہا کہ مسودہ قانون میں کم عمری کی شادی پر جرمانے کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔
رمیشں کمار نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے اس بل کی منظوری ایک اہم پیش رفت ہے۔
’’اگر لگن کے ساتھ کام کریں تو آپ کو اس کا نتیجہ ضرور ملتا ہے میں نے تین سال اس بل پر محنت کی اور میری یہ خواہش تھی کہ پورے پاکستان میں یہ بل نافذ العمل کراؤں اور آج میری محنت رنگ لائی اور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف سے یہ بل منظور ہوا۔ 18 سال سے کم عمر میں بچہ یا بچی شادی نہیں کر سکے گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ شادی کے بعد علیحدگی سے متعلق بھی اس مسودہ قانون میں شق شامل کی گئی ہے۔
مسودہ قانون میں کہا گیا کہ شادی ہونے کے چھ ماہ کے اندر اندر اس کا اندراج کرانا لازمی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں ہندو برادری کی شادیوں کے اندراج کا کوئی قانون نہیں ہے اور طویل عرصے سے پاکستان میں موجود ہندو برادری اس بارے میں قانون سازی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
ملک میں ہندو برداری سے تعلق رکھنے والوں کی شادیوں کے اندارج سے متعلق قانون نا ہونے پر سپریم کورٹ بھی پوچھ چکی ہے۔
پاکستان میں آباد ہندو برادری کا یہ موقف رہا ہے کہ شادی کا اندارج ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا ہونے کی وجہ سے ملک میں ہندو برادری کو بہت سی مشکلات کا سامنا رہا کیوں کہ قانون کی عدم موجودگی کے باعث بہت سے قانونی معاملات میں کسی جوڑے کے لیے اپنی شادی شدہ حیثیت کو ثابت کرنا ممکن نہیں تھا۔