خیبر پختوںخواہ کے شمالی ضلع مانسہرہ میں غیرت کے نام پر ایک نوجوان کے ہجوم کے ہاتھوں کے الزام میں پولیس نے آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا ہے لیکن صوبے میں غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں اور ہجوم کی طرف سے قانون کو ہاتھ میں لینے کا تازہ ترین واقعہ ہے جس پر انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایک روز قبل منظر عام پر آنے والا یہ واقعہ دراصل گزشتہ ماہ کی 22 تاریخ کو مانسہرہ کے گاؤں درہ شوال میں پیش آیا تھا لیکن مبینہ طور پر مقامی لوگوں نے پولیس کے ساتھ مل کر اسے دبانے کی کوشش کی تھی۔
تاہم ہزارہ ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس سعید خان وزیر نے ان اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مقتول عبدالستار کے ورثا کی طرف سے جن آٹھ افراد کو ملزم نامزد کیا گیا تھا انھیں گرفتار کر کے تفتیش مکمل کی جا چکی ہے جب کہ ورثا نے اب جن 14 افراد کے نام دیے ہیں ان کی گرفتاری کے لیے بھی ٹیمیں تشکیل دی جا چکی ہیں۔
پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں واقعے سعید وزیر نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ عبدالستار نامی نوجوان جس لڑکی سے مبینہ طور پر ملنے جاتا تھا اس کے گھر والوں نے اس شخص کو گزشتہ سال بھی متنبہ کیا تھا۔
"ستار کا سال پہلے بھی لڑکی والوں نے کہا کہ آپ گاؤں میں نہ آئیں اور اس کو باندھ کو بھی رکھا تھا پھر چھوڑ دیا تھا۔ لیکن وہ پھر بھی جاتا رہا۔ اس دفعہ لڑکی والوں نے منصوبہ بنا کر اسے بلایا پھر وہاں اس کو تشدد کا نشانہ بنایا وہ زخمی ہوا اور اس کی موت ہو گئی۔"
بتایا جاتا ہے کہ گاؤں کے ایک مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر عبدالستار کو پہلے گولی ماری اور پھر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
رواں سال کے اوائل سے صوبہ خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جب کہ ہجوم کی طرف سے تشدد کر کے کسی کو ہلاک کرنے کا یہ دوسرا اہم ترین واقعہ ہے۔
اس سے قبل اپریل کے اوائل میں مردان کی یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام میں طلبا نے ایک نوجوان طالب علم مشال خان کو ہلاک کر دیا تھا۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج شیر محمد خان ایسے واقعات کو قانون کی عملداری قائم رکھنے میں ریاستی اداروں کی نا کامی سے تعبیر کرتے ہیں۔
"ریاستی ادارے مفلوج ہیں اور ہر شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے اور لے رہا ہے اور ایسے انداز سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ پھر اصل قاتل کا پتا بھی نہ چلے بہت سارے لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔۔۔ہر شخص خود کو قانون سے بالا تر سمجھتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ سماجی تنظیمیں صرف لوگوں میں شعور اجاگر کر سکتی ہیں اور مسائل پر آواز بلند کر سکتی ہیں لیکن ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے وسائل اور اختیار ریاستی اداروں کے پاس ہی ہوتا ہے جس کا موثر نفاذ ان کی ذمہ داری ہے۔
صوبائی حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا اور اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کو واضح ہدایات بھی جاری کی جا چکی ہیں۔