پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف آواز بلند کرنے والے معروف وکیل ضیا احمد اعوان کہتے ہیں کہ انسانوں کی تجارت ایک پیچیدہ معاملہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت اور سول سوسائٹی کے اشتراک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر موثر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے رواں ہفتے ہی انسانی تجارت سے متعلق 2016ء کی اپنی جاری کی جس میں پاکستان کو بدستور مرد و خواتین اور بچوں کی تجارت کا ایک ذریعہ اور اس کاروبار کا ایک راستہ قرار دیتے ہوئے زیرنگرانی ملکوں کی فہرست میں شامل رکھا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق حکومت کی طرف سے اس غیرقانونی تجارت کو روکنے کے لیے ماضی کی نسبت مجموعی طور پر عملی اقدام دیکھنے میں نہیں اور نہ ہی اس نے اس کے انسداد کے لیے وضع کردہ کم سے کم معیار پر پورا اترنے کے لیے قابل ذکر کوششیں کیں۔
ضیا اعوان نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کا جغرافیائی محل و وقوع اسے مختلف مسائل کا شکار بنا کر ہدف تنقید بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان کے نزدیک موجودہ حکومت نے انسانی تجارت کو روکنے کے لیے ماضی کی نسبت کچھ اقدام بہرحال ضرور کیے ہیں۔
"یہاں سے انسانی تجارت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور اس میں بہت سارے ملک ملوث ہیں۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ اس حکومت نے بہرحال ماضی کی نسبت اقدام کیے ہیں ایف آئی اے کو متحرک کیا ہے۔۔۔پہلے بیرون ملک سے بھر بھر کے لوگوں کو بھیج دیتے تھے وہ افغانی ہوتے تھے برمی ہوتے تھے انھیں پاکستانی کہہ کر بھیج دیتے تھے۔۔۔پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ہر سرحد پر چیک رکھ سکے۔"
حالیہ برسوں میں وفاقی تفتیشی ادارے "ایف آئی اے" نے ملک کے مختلف حصوں میں چھاپا مار کارروائیاں کرتے ہوئے انسانی اسمگلنگ میں ملوث لاتعداد افراد کو پکڑا جن کے قبضے سے جعلی سفری دستاویزات اور ایسا ہی مواد برآمد کیا گیا۔
ضیا اعوان کہتے ہیں کہ انسانی تجارت کو روکنے کے لیے حکومت اور سماجی شعبے کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
"اگر ہم کہیں گے کہ حکومت ہی سارے اقدام کرے گی تو یہ کبھی بھی حل نہیں ہوگا اس میں بین الاقوامی برادری کو شمولیت کرنا پڑے گی اور پھر اس میں سول سوسائٹی کے ساتھ حکومتی اداروں کو اشتراک کرنا پڑے گا اور پھر اس اشتراک سے ایسے گڑھ جہاں سے انسانی اسمگلنگ یا تجارت ہوتی ہے ان کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔عطیہ دینے والی بین الاقوامی برادری نے بھی پوری طرح سے یہاں سرمایہ کاری نہیں کی جیسے انھوں نے بنگلہ دیش میں کی جیسے نیپال میں کی ہے تو وہاں کے مقابلے میں پاکستان اتنا بڑا ملک ہے اتنے پورس بارڈرز ہیں عطیہ دینے والی برادری نے اس پر اتنی توجہ نہیں دی۔"
ان کے بقول انسانی اسمگلنگ اور تجارت کو روکنے کے ضمن میں کوششوں میں خلا موجود ہے اور اس کے لیے ادارے بنانے اور ان کی استعداد کار بڑھانے کے لیے بھی بین الاقوامی برادری کو پاکستان کی بھرپور مدد کرنی چاہیے۔