پاکستان اور بھارت نے دونوں ملکوں میں تعینات ایک دوسرے کے سفارتی عملے کو مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے والے معاملے کو بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے جسے مبصرین ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں اسلام آباد نے نئی دہلی پر بھارت میں مقیم اپنے سفارتی عملے کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد بھارت کی طرف سے بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے گئے۔ اس کی وجہ سے دنوں ملکوں کے پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہو گئے ۔
یہ الزامات ایک ایسے وقت سامنے آئے جب کشمیر کے متنازع علاقے کو پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام حصوں میں جدا کرنے والی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ کے تبادلے کی واقعات ناصرف جانی ومالی نقصان کا باعث بن رہے تھے بلکہ اس وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے علاوہ عوامی رابطے بھی متاثر ہو رہے تھے۔
جمعہ کو دیر گئے اسلام آباد اور نئی دہلی کی طرف سے ایک ہی وقت میں جاری ہونے والے مختصر بیان میں کہا گیا کہپاکستان اور بھارت نے سفارت کاروں اور سفارتی تنصیبات سے جڑے معاملات کو حل کرنے کے لیے 1992 میں طے پانے والے ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے یہ پیش رفت پس پردہ سفارتی کوششوں کی غمازی کرتی ہے جو اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بات چیت کا عمل شروع کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر جسپال نے ہفتہ کو وائس امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " آثار تو یہی ہیں کہ بات چیت کا عمل شروع ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں امریکہ کا بھی بلواسطہ ایک کردار نظر آتا ہے اس نے دونوں ملکوں پر زور دیا ہے کہ آپ آپس میں مذاکرات کا عمل شروع کریں تو مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے پہلے سفارتی سطح پر کچھ اقدام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ "
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کو اپنی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔
"اسلام آباد کو سفارتی سطح پر اپنی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی اور کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جو پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں مزید کسی بگاڑ کا سبب بنے کیونکہ ایک ذمہ دار جوہری ملک ہونے کے ناتے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری رہے۔"
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کا باہمی تناؤ مکمل طور پر اسی صورت ختم ہوگا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ طور پر بات چیت اور اعتماد سازی کا عمل شروع ہو گا۔
واضح رہے کہ امریکہ سمیت کئی دیگر ملک اور اقوام متحدہ اسلام آباد اور نئی دہلی پر اپنے باہمی معاملات کو حل کرنے زور دیتے آ رہے اور پاکستان کی طرف سے متعدد بار کہا جاتا رہا ہے کہ وہ کشمیر سمیت تمام معاملات پر بھارت سے بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم بھارت کی طرف سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی مثبت ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
لیکن ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے اس خطے میں مفادات کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت پر بات چیت کے لیے دباؤ کو جاری رکھیں۔