پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان روایتی اور جوہری حادثاتی جنگ کے امکانات کو کم کرنے کے بارے میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات منگل کو اسلام آباد میں ختم ہو گئے جس میں کسی نمایاں پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان اس سطح پر مذاکرات کا یہ چھٹا دور تھا۔
بات چیت کے اختتام پر پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’روایتی اور جوہری ہتھیاروں سے متعلق اعتماد سازی کے موجودہ اقدامات یا (سی بی ایم) کا جائزہ لیا گیا جب کہ باہمی طور پر قابل قبول اضافی سی بی ایم کے امکانات تلاش کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔‘‘
اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں سے دونوں ملکوں کے درمیان جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کو کم کرنے کے معاہدے کی آئندہ پانچ سال کے لیے توسیع کرنے کی سفارش کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
بات چیت میں پاکستانی وفد کی سربراہی وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری منور سعید بھٹی اور بالا ورما بھارتی وفد کی قیادت کررہے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے کہا تھا مذاکرات کا مقصد ایک دوسرے کے جوہری نظریات کو سمجھنا ہے تاکہ خطے میں ’’مستحکم جوہری ماحول‘‘ قائم رہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک تین جنگیں ہو چکی ہیں لیکن 1998 میں دونوں ملکوں کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے بعد ماہرین مسلسل ان خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ان حریف ملکوں کے درمیان مستقبل میں ہونے والی کوئی بھی جنگ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ بن سکتی ہے۔
انھی خدشات کو کم کرنے کے لیے پاکستانی اور بھارتی قائدین نے مذاکرات کے ذریعے خاص طور پر فوجی رابطوں کو موثر بنانے کے لیے تجاویز کا تبادلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے معاہدے پر بھی دستخط کر رکھے ہیں جو فریقین کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ کسی بھی میزائل تجربے سے قبل ایک دوسرے کو پیشگی اطلاع دی جائے گی۔
پاکستان اور بھارت ہر سال یکم جنوری کو اپنی جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ تبادلہ 1988ء میں دونوں ملکوں کے درمیاں طے پانے والے ایک سمجھوتے کے تحت کیا جاتا ہے جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جنگ کی صورت میں بھارت اور پاکستان ان حساس اہداف پر حملہ نہ کریں۔