اسلام آباد —
پاکستان نے ایک بار پھر اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات بشمول مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل کرنا چاہتا ہے۔
سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ہفتہ کو اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات کا کوئی نعم البدل نہیں اور بھارت کے ساتھ بات چیت ہی کے ذریعے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی بلاشبہ ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس بارے میں جتنی تشویش بھارت کو ہے یہ معاملہ پاکستان کے لیے بھی اتنا ہی باعث پریشانی ہے۔
سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ الزام تراشی سے دہشت گردی کے مسئلے کا حل ممکن نہیں بلکہ اُن کے بقول اس کے لیے پاکستان اور بھارت کو سنجیدگی سے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
جلیل عباس جیلانی کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب گزشتہ ہفتے ہی نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات میں کشمیر اور دہشت گردی کے مسئلے سمیت تمام اُمور پر بات چیت کی گئی تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات سے قبل منموہن سنگھ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں پاکستان کو خطے میں دہشت گردی کا مرکز قرار دیا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے بھی رواں ہفتے نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ دہشت گردی پورے خطے کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور اُن کے بقول دونوں ملکوں کے عہدیداروں کے درمیان مستقبل میں بھی اس معاملے پر بات چیت ہو گی۔
’’دہشت گردی کا پورا ناسور ہے جو ہمارے پورے خطے کو ڈس رہا ہے، اُس کے سارے ملکوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشی فائدہ مند نہیں۔ جب (پاک بھارت) مذاکرات بحال ہوں تو یہ سارے معاملے تفصیل سے زیر بحث آئیں گے۔‘‘
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں بھارت کی مبینہ مداخلت سے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو آگاہ کیا تھا اور اس بارے میں شواہد بھی فراہم کیے جائیں گے۔
دریں اثناء وزیر اعظم نواز شریف کے رواں ماہ کے اواخر میں دورہ امریکہ کے بارے میں سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ صدر براک اوباما سے ملاقات میں ڈرون حملوں کا معاملہ بھی اُٹھایا جائے گا۔
سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ہفتہ کو اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات کا کوئی نعم البدل نہیں اور بھارت کے ساتھ بات چیت ہی کے ذریعے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی بلاشبہ ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس بارے میں جتنی تشویش بھارت کو ہے یہ معاملہ پاکستان کے لیے بھی اتنا ہی باعث پریشانی ہے۔
سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ الزام تراشی سے دہشت گردی کے مسئلے کا حل ممکن نہیں بلکہ اُن کے بقول اس کے لیے پاکستان اور بھارت کو سنجیدگی سے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
جلیل عباس جیلانی کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب گزشتہ ہفتے ہی نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات میں کشمیر اور دہشت گردی کے مسئلے سمیت تمام اُمور پر بات چیت کی گئی تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات سے قبل منموہن سنگھ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں پاکستان کو خطے میں دہشت گردی کا مرکز قرار دیا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے بھی رواں ہفتے نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ دہشت گردی پورے خطے کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور اُن کے بقول دونوں ملکوں کے عہدیداروں کے درمیان مستقبل میں بھی اس معاملے پر بات چیت ہو گی۔
’’دہشت گردی کا پورا ناسور ہے جو ہمارے پورے خطے کو ڈس رہا ہے، اُس کے سارے ملکوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشی فائدہ مند نہیں۔ جب (پاک بھارت) مذاکرات بحال ہوں تو یہ سارے معاملے تفصیل سے زیر بحث آئیں گے۔‘‘
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں بھارت کی مبینہ مداخلت سے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو آگاہ کیا تھا اور اس بارے میں شواہد بھی فراہم کیے جائیں گے۔
دریں اثناء وزیر اعظم نواز شریف کے رواں ماہ کے اواخر میں دورہ امریکہ کے بارے میں سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ صدر براک اوباما سے ملاقات میں ڈرون حملوں کا معاملہ بھی اُٹھایا جائے گا۔