رسائی کے لنکس

2010 میں مہنگائی کا نیا ریکارڈ، قیمتوں میں سو فیصد سے زائد اضافہ


2010 میں مہنگائی کا نیا ریکارڈ، قیمتوں میں سو فیصد سے زائد اضافہ
2010 میں مہنگائی کا نیا ریکارڈ، قیمتوں میں سو فیصد سے زائد اضافہ

2010ء میں جہاں ایک طرف عوام کو دہشت گردی کے سنگین مسئلے سے سارا سال دوچار ہونا پڑا وہیں ملک میں بڑھنے والی روز بہ روز مہنگائی نے بھی سابقہ تمام ریکارڈز توڑ دیئے۔ 2010ء کے دورا ن عام استعمال کی اشیاء بالخصوص ایسی ایشیاء جو ہر گھر میں استعمال ہوتی ہیں، کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے سرکاری اعدود شمار پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی گئی۔

اس رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران جس شرح سے مہنگائی بڑھی ہے وہ عام آدمی کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی ہے۔ ذیل میں ان چیزوں کا الگ الگ بیان کیا گیا ہے تاکہ مہنگائی کی شرح کا بغور جائزہ لیا جاسکے:

وہ اشیاء جن کی قیمتوں میں سو فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا:

پیاز ایک عام استعمال کی چیز ہے مگر عیدالفطر، عید الاضحی اورمحرم کے مواقع پر پیاز کی قیمتوں میں ایک سو بیس فیصد اضافہ ہوا۔ اس وقت پیاز کم از کم 60فیصد اضافے کے ساتھ ملک بھر کی مارکیٹو ں میں فروخت ہورہی ہے۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ اس بار بڑے پیمانے پر پیاز بھارت برآمد کی جارہی ہے۔ بھارت میں زیادہ اور بے ہنگم بارشوں کے باعث پیاز اور دیگر فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جس کے بعد دہلی سرکار نے پاکستان سے پیاز کی ڈیمانڈ کی ہے۔

چینی اوپن مارکیٹ میں 55 روپے تھی جس میں 130فیصد اضافہ نوٹ کیاگیا۔

وہ اشیاء جن کی قیمتوں میں سو فی صد سے کچھ کم اضافہ ہوا :

مونگ کی دال عموماً امیر اور غریب دونوں کے ہی دستر خوان پر نظر آتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس سال مونگ کی دال 85 فیصد اضافے کے ساتھ 140روپے فی کل فروخت ہوئی ۔

وہ اشیاء جن کی قیمتوں میں پچیس فیصد سے زائد اضافہ ہوا :

اس کیٹگری میں سب سے اوپر ٹماٹر آتا ہے ۔ رواں سال ٹماٹر بھارت سے برآمد کرنا پڑا کیوں کہ سیلاب کے باعث ملکی ٹماٹر کی فصل تباہ ہوگئی تھی۔ ٹماٹر کی فی کلو قیمت اوسطاً تیس روپے سے بڑھ کر 70اور اسی روپے تک پہنچ گئی کیوں کہ ٹماٹر تقریباً ہر قسم کے سالن میں ڈالا جاتا ہے۔

وہ اشیاء جن کی قیمتوں میں پچاس فیصد یا اس سے زائد اضافہ ہوا:

رواں سال سرخ مرچوں کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس اضافے کے ساتھ سرخ مرچیں دو سو چالیس روپے فی کلو فروخت ہوئیں۔ آلو کی قیمت میں25 فیصدجبکہ لہسن کے داموں میں پچاس فیصداضافہ نوٹ کیا گیا۔

یہی کچھ چینی کے ساتھ بھی ہوا۔ گڑ کی قیمت تیس فیصد اضافے کے ساتھ 165، دال چنا پچاس فیصد اضافے کے ساتھ 75روپے کلو، ایل پی جی گیس سلینڈر 30 فیصد اضافے کے ساتھ 1357روپے، کھلا ویجیٹیبل گھی 36فیصد اضافے کے ساتھ 155 روپے کلو فروخت ہوا۔

سو یونٹ تک ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بلوں کے نرخوں میں 23 فیصد اضافے نے بھی عوام کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ گیس چارجز میں 18 فیصد، کوکنگ آئل اور گھی کی قیمتوں میں 20 فیصداضافہ ہوا۔

رواں سال چھوٹے گوشت کی فی کلو قیمت 37 فیصد اضافے کے ساتھ 411 روپے رہی۔ مٹی کے تیل کی قیمتوں میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا۔ تازہ دودھ کی قیمتیں اٹھارہ روپے اضافے کے ساتھ پچاس روپے تک پہنچ گئیں جبکہ انڈے، مرغی، جلانے کی لکڑی، صابن، کیلا، نمک، آٹا، گندم، چائے کے پتی وغیرہ کی قیمتوں میں بھی دو سے دس فیصد اوسطاً اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔

رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران خام مال کی قیمتوں میں سترفیصد، ایندھن کی قیمتوں میں تیرہ فیصد، صنعتی اشیاء کی قیمتوں میں انتیس فیصد اور تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں انیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ جہاں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے وہیں ناقص طرز حکمرانی، تاجروں کی من مانی قیمتیں، اسٹیٹ بینک سے دھڑا دھڑ حکومتی قرضے اور سیلاب کے باعث طلب و رسد میں عدم توازن اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بناہے۔

XS
SM
MD
LG