رسائی کے لنکس

پاکستان کا طالبان مخالف لشکروں پرانحصاربتدریج کم


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان میں حکام نے کہا ہے کہ شمال مغربی خیبر پختون خواہ صوبے کےشورش زدہ اضلاع میں طالبان جنگجوؤں کی واپسی کو روکنے کی کوششوں کے سلسلے میں مقامی ’’امن لشکروں‘‘ پر انحصار کی بجائے اب ان علاقوں میں پولیس کو مؤثر بنانے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔

اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ چند برس قبل تک حکومت کو ’’کمیونٹی پولیس‘‘ کی زیادہ ضرورت تھی، لیکن اب اس پالیسی میں بتدریج تبدیلی کر کے پولیس اہلکاروں کی استعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ نئی بھرتیوں کے ذریعےاُن کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔

’’اب پولیس خود ان جگہوں پر موجود ہے جہاں پر سکیورٹی کی ضرورت ہے۔ پہلے ایسی جگہوں پر صرف کمیونٹی پولیس اور مقامی جرگے (لشکروں) کے رضا کار ہوا کرتے تھے۔“

تاہم میاں افتخار نے کہا کہ جن علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اب بھی امن لشکروں کی ضرورت ہے وہاں حکومت رضا کاروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ پشاور کے نواحی علاقوں میں ’’امن لشکروں‘‘ کی مدد کے لیے صوبائی حکومت نے ’’کمیونٹی پولیس‘‘ کے 70 اہلکاروں کو تعینات کر رکھا ہے جنھیں اُن کے بقول تنخواہیں، اسلحہ اور دیگر ضروری اشیاء سرکاری خزانے سے فراہم کی جا رہی ہیں۔

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ بعض علاقوں میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں سے رابطے رکھنے والے اور جرائم پیشہ عناصر نے بھی اپنے لشکر قائم کر رکھے ہیں۔ ’’جس طرح دہشت گردوں سے لوگ تنگ تھے تو امن لشکر کے نام پر جو لوگ دہشت گردی کر رہے ہیں حکومت اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتی۔‘‘

صوبائی وزیر اطلاعات نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب بعض علاقوں میں امن لشکروں کے رہنما حکومت پر عدم تعاون کا الزام لگا رہے ہیں۔

قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کی طرح صوبائی حکومت نے بھی تقریباً تین سال قبل دہشت گردی اور انتہا پسندی کے رجحان پر قابو پانے کے لیے مقامی سطح پر امن لشکروں اور کمیٹیوں کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کی تھی۔

حقوق انسانی کی تنظیمیں اور غیر جانبدار مبصرین اس پیش رفت پر یہ کہہ کر تنقید کرتے آئے ہیں کہ ماورائے آئین ان لشکروں کے قیام سے ریاستی عمل داری متاثر ہو سکتی ہے کیوں کہ ان میں شامل افراد عمومی طور پر اپنی کارروائیوں کے لیے جواب دہ نہیں۔

XS
SM
MD
LG