پاکستان اور ایران نے سرحدی امور سمیت دوطرفہ تعلقات میں سامنے آنے والے مسائل کے حل کے لیے اعلیٰ سطح پر مشاورتی میکنزم بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
ایران کے وزیرِ خارجہ امیر عبداللہیان اور ان کے پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی کے درمیان پیر کو اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں طے پایا کہ دونوں ملک مسائل کے حل کے لیے وزارتِ خارجہ کی سطح پر باقاعدہ سے کام کیا کریں گے۔
ایران کے اعلیٰ سفارت کار کے دورۂ پاکستان کو دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ دو طرفہ میزائل حملوں کے بعد تعلقات کو معمول پرلانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
وفود کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کے بعد دونوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر خارجہ کی سطح پر بنائے جانے والا میکنزم باقاعدگی سے تہران و اسلام آباد میں ملاقاتیں کرے گا۔ یہ میکنزم دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعاون کے فروغ، دہشت گری و سرحدی خطرات کا تدارک اور ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرے گا۔
سرحدی اور سیکیورٹی امور کو بہتر انداز میں دیکھنے کے لیے پاکستان کا نمائندہ ایران کے سرحدی شہر زاہدان جب کہ ایرانی سیکورٹی نمائندہ پاکستان کے سرحدی شہر تربت میں تعینات کیا جائے گا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ایران کے وزیرِ خارجہ امیر عبداللہیان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور ایران کے مشترکہ سرحدی خطے اور ایرانی و پاکستانی علاقوں میں دہشت گرد موجود ہیں جنہیں تیسرے ملک کی مدد و قیادت حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کو ایران کی سلامتی سمجھتے ہیں اور دونوں ملک تاریخی ہمسایہ دوست ملکوں کے تعلقات کو متاثر کرنے کے لیے دہشت گردوں کو کوئی موقع نہیں دیں گے۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تاریخی طور کوئی سرحدی تنازع نہیں اور دونوں ملکوں کے تعلقات کی مثال دنیا میں کم ہی ملے گی۔
پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان دوست ہمسایہ ملک ہیں اور مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک سیاسی اور سیکیورٹی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں، دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے ایک خطرہ ہے۔
جلیل عباس جیلانی نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو دورہ پاکستان کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آئندم عام انتخابات کے بعد پاکستان کی حکومت اور عوام ایرانی صدر کے دورے کا خیر مقدم کریں گے۔
پاکستانی ہم منصب کی دعوت پر ایرانی وزیرِ خارجہ کے اس دورے کو اسلام آباد اور تہران کے درمیان اپنے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حالیہ میزائل حملوں کے بعد کشیدگی کو کم کرنے کی اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
رواں ماہ ایران نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں کارروائی کے دوران 'جیش العدل' نامی عسکریت پسند تنظیم کے کارندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ایرانی کارروائی کے بعد پاکستان نے اپنے سفیر کو واپس بلواتے ہوئے ایرانی سفیر کو بھی ملک چھوڑنے کا کہا تھا۔ بعد ازاں پاکستان نے ایران کے علاقے سراوان میں حملہ کر کے پاکستانی نژاد دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔
دونوں ملکوں نے حملے اور جوابی حملے کے بعد 22 جنوری کو اپنے مشترکہ بیان میں اعلان کیا تھا کہ دونوں ممالک کے سفیر اپنے اپنے عہدوں پر واپس جائیں گے اور ایرانی وزیرِ خارجہ اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔
مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران اس سوال پر کہ دوطرفہ حملوں کے بعد اتنی تیزی تعلقات کیسے بحال ہوئے؟ کے جواب میں جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ اعلی سیاسی و عسکری قیادت اور انتظامی سطح پر روابط کا نظام موجود ہے اور اسی بنا پر غلط فہمیوں کو بہت جلد دور کرلیا گیا ہے۔ ان کے بقول بات چیت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ حالیہ حملوں کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال کو بحرانی صورت نہیں کہتے۔ ان کے بقول تاریخی تعلقات ہونے کی بنا پر یہ قدرتی عمل تھا کہ دونوں ملک اپنے بنیادی تعلقات کو جاری رکھتے۔
ایران اور پاکستان 900 کلومیٹر (560 میل) کی مشترکہ سرحد رکھتے ہیں جہاں پر اسمگلروں اور عسکریت پسندوں کی آزادانہ نقل و حرکت ہوتی رہتی ہے۔
فورم