وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اتوار کو ایک ہنگامی اجلاس میں پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے کو آئین پر حملہ قرار دیا گیا اور اس کی شدید مذمت کی گئی۔
اعلیٰ سطحی اجلاس میں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس منگل کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی کہ جانی نقصان کے بغیر ریاستی اداروں کے تحفظ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
پاکستانی فوج کے کور کمانڈرز کا اجلاس پیر کی بجائے اتوار کی شام ہی راولپنڈی میں ہوا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے اتوار کو ایک بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ کور کمانڈرز کا اجلاس پیر کو بلایا گیا، لیکن اس کے کچھ ہی دیر بعد ایک اور پیغام میں کہا گیا کہ یہ اجلاس اتوار کی شام ہی طلب کر لیا گیا۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں یہ اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب اسلام آباد کے ’ریڈ زون‘ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
’ریڈ زون میں جھڑپیں جاری‘
احتجاج کرنے والے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے سیاسی کارکنوں اور پولیس کے درمیان اتوار کو بھی مڈبھیڑ ہوئی جب کہ پولیس کی طرف سے وقفے وقفے سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے بھی پھینکے جا تے رہے۔
ان دونوں جماعتوں کے ہزاروں کارکنان 16 اگست سے اسلام آباد میں پر امن دھرنا دیے ہوئے تھے تاہم ہفتہ کو دیر گئے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے بظاہر نواز انتظامیہ پر دباؤ بڑھانے کی غرض سے اُنھوں نے وزیراعظم ہاؤس کی طرف مارچ شروع کیا جس پر پولیس نے ان کے خلاف کارروائی شروع کی۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں چلائیں جب کہ احتجاج کرنے والے افراد بھی پولیس پر پتھراؤ کرتے رہے اور غلیلوں کی مدد سے اُنھیں نشانہ بناتے رہے۔
جھڑپوں میں حکام کے مطابق تین افراد ہلاک اور چار سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والے افراد میں بچے، عورتیں اور متعدد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے سربراہ پروفیسر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ ایک شخص پولیس کی کارروائی سے بھاگتے ہوئے پانی سے بھرے گڑھے میں ڈوب کر ہلاک ہوا۔ بعد ازاں دو اور زخمی اسپتال میں دم توڑ گئے۔
اتوار کو اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اپنے موقف کو دہرایا اور کہا یہ لوگ اسلام آباد چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور "ہر صورت میں وزیراعظم سے استعفیٰ لیں گے۔"
انھوں نے ایک بار پھر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا احتجاج پرامن ہو گا۔
اہم و حساس ریاستی عمارتوں اور غیر ملکی سفارتخانوں پر مشتمل علاقے "ریڈ زون" میں اتوار کو پولیس کی اضافی نفری بھی طلب کر لی گئی جب کہ مظاہرین اب بھی وزیراعظم ہاؤس کی طرف جانے والے راستے پر بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ رات کو پارلیمنٹ ہاؤس کے بیرونی جنگلے کو توڑ کر مظاہرین پارلیمان کی حدود میں داخل ہو گئے تھے اور اتوار کی صبح انھوں نے یہاں سبزہ زار پر اپنے خیمے لگا کر ڈیرے ڈال لیے۔
اس دوران پولیس اور مظاہرین کی طرف سے بعض نجی ٹی وی چینلز کے نمائندوں اور کارکنوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے تین کیمرہ مین اور چار صحافی و کارکن زخمی ہوگئے۔
اس واقعے پر ملک کی صحافتی تنظیموں کی طرف سے شدید مذمت کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔
حکومتی عہدیداروں کی طرف سے بیانات سامنے آئے ہیں کہ احتجاج کرنے والوں پر واضح کر دیا تھا کہ ریاستی اداروں پر ہلہ بولنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ حکومت احتجاج کرنے والے جماعتوں کے قائدین سے رابطے کی کوششیں کر رہی ہے اور اس نے تشدد سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کی۔
ادھر ملک کے مختلف شہروں بشمول کراچی میں اتوار کو ہڑتال اور احتجاج کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔