اسلام آباد —
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رواں ہفتے ہونے والے بم دھماکوں میں شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ہفتہ کو اسلام آباد میں بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔
مظاہرے میں شریک افراد نے ہاتھوں میں کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر احتجاجی نعرے درج تھے۔
جمعرات کو کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری کے ایک مصروف علاقے علمدار روڈ پر ہونے والے دو بم دھماکوں میں 98 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔
جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری پر اس سے قبل بھی ہلاکت خیز حملے ہو چکے ہیں۔
اسلام آباد میں ہونے والے مظاہرے کے شرکا کا کہنا تھا کہ تحفظ فراہم کرنے کے حکومتی دعوؤں کے برعکس ان کی برادری کے لوگوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے جو اب تشویش ناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم سجاد حسین چنگیزی بھی اس مظاہرے میں شامل تھے۔ ان نے کوئٹہ کے بم دھماکوں پر غصے کا اظہار تو کیا لیکن ان کا کہنا تھا ’’ہزارہ برادری کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ دس سالوں سے لاشیں اٹھانے کے باوجود ہماری طرف سے کوئی پرتشدد مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہماری کمیونٹی عدم تشدد کی علامت ہے۔‘‘
انھوں نے بھی حکومت سے تحفظ فراہم کرنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ کیا۔
حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن بشریٰ گوہر نے اس موقع پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جن سے نمٹنے کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
’’میں وزیراعظم سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ملیں ان کے تحفظات کو سنیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے۔‘‘
ہفتہ کو وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ کو کوئٹہ کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بلوچستان بھیجا ہے۔ بیان کے مطابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف آئندہ ہفتے ہزارہ برادری کے نمائندوں سے بھی ملاقات کریں گے۔
مظاہرے میں شریک افراد نے ہاتھوں میں کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر احتجاجی نعرے درج تھے۔
جمعرات کو کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری کے ایک مصروف علاقے علمدار روڈ پر ہونے والے دو بم دھماکوں میں 98 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔
جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری پر اس سے قبل بھی ہلاکت خیز حملے ہو چکے ہیں۔
اسلام آباد میں ہونے والے مظاہرے کے شرکا کا کہنا تھا کہ تحفظ فراہم کرنے کے حکومتی دعوؤں کے برعکس ان کی برادری کے لوگوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے جو اب تشویش ناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم سجاد حسین چنگیزی بھی اس مظاہرے میں شامل تھے۔ ان نے کوئٹہ کے بم دھماکوں پر غصے کا اظہار تو کیا لیکن ان کا کہنا تھا ’’ہزارہ برادری کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ دس سالوں سے لاشیں اٹھانے کے باوجود ہماری طرف سے کوئی پرتشدد مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہماری کمیونٹی عدم تشدد کی علامت ہے۔‘‘
انھوں نے بھی حکومت سے تحفظ فراہم کرنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ کیا۔
حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن بشریٰ گوہر نے اس موقع پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جن سے نمٹنے کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
’’میں وزیراعظم سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ملیں ان کے تحفظات کو سنیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے۔‘‘
ہفتہ کو وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ کو کوئٹہ کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بلوچستان بھیجا ہے۔ بیان کے مطابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف آئندہ ہفتے ہزارہ برادری کے نمائندوں سے بھی ملاقات کریں گے۔