پاکستان میں قانون سازی کو اسلامی قوانین کے مطابق بنانے کے لیے قائم اعلیٰ ترین مشاورتی کونسل "اسلامی نظریاتی کونسل" نے مذہبی فرقوں سے متعلق ہر قسم کی نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مسالک کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے پر زور دیا ہے۔
کونسل کی طرف سے یہ بات ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب رواں ماہ کے اواخر میں اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم شروع ہونے والا ہے اور اس دوران ماضی میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
محرم میں شیعہ مسلک کے تعلق رکھنے والوں کے ماتمی جلوس اور عزاداری کی مجالس منعقد ہوتی ہیں اور اس دوران ملک کے مختلف علاقوں میں حالات اکثر کشیدہ صورتحال اختیار کر کے پرتشدد رخ اختیار کر لیتے ہیں۔
کونسل نے اپنے ضابطہ اخلاق میں کہا ہے کہ کسی بھی مسلمان فرقے کو "کافر" قرار دینا قابل مذمت ہے۔
"ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور تشدد اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ تمام مکتبہ فکر ایسے اقدامات سے خود کو علیحدہ کرنے کا اعلان کریں۔"
مزید برآں یہ "غیر اسلامی اور قابل مذمت فعل ہے کہ کسی بھی مسلمان فرقے کو کافر کہہ کر واجب القتل قرار دیا جائے۔"
اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک میں غیر مسلموں کے تحفظ میں بھی اضافے کا مطالبہ کیا۔
"یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی عبادگاہوں اور مقدس مقامات کے تحفظ کو قانون کے مطابق تحفظ فراہم کرے۔"
پاکستانی قوانیں میں پہلے ہی نفرت انگیز تقاریر اور بیانات پر قدغن ہے لیکن عملی طور پر اس کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔
حکومت بھی ملک میں مختلف مذہبی مکتبہ فکر کے علما سے درخواست کرتی رہی ہے کہ وہ بین المذاہب اور مسالک کے مابین ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
اسلامی نظریاتی کونسل پارلیمان میں مشاورت کے بعد قانونی سفارشات ارسال کرتی رہتی ہے اور بعض اوقات ان سفارشات میں مختلف حلقوں میں اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
ایک روز قبل ہی کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ اگر کوئی مرد دوسری شادی کرتا ہے تو اس کی پہلی بیوی اس چیز کو بنیاد بنا کر طلاق حاصل نہیں کر سکتی اور اس بارے میں موجود قانون میں ترمیم کی جائے۔