پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی کمیٹی برائے امور داخلہ کے ایک اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک کی مختلف جیلوں میں قید خواتین سے رات کو مبینہ طور پر بدسلوکی کی جاتی ہے یا اُنھیں غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
خواتین سے ایسے سلوک پر کمیٹی کے اراکین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے سربراہ سینیٹر رحمان ملک کی سربراہی میں پیر کو ہونے والے اجلاس میں اس معاملے پر سامنے آنے والی اطلاعات پر بات چیت کی گئی۔
کمیٹی میں بتایا گیا ہے کہ اس کام میں مبینہ طور پر متعلقہ جیلوں کا عملہ بھی ملوث ہے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ خواتین سے ایسی مبینہ بدسلوکی کن جیلوں میں کی گئی اور وہ کن صوبوں میں واقع ہیں۔
کمیٹی نے چاروں صوبوں کے انسپکٹرز جنرل جیل خانہ جات کو بھی کہا ہے کہ وہ آئندہ اجلاس میں پیش ہو کر اس معاملے کے بارے میں صورت حال سے آگاہ کریں۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک عوامی نیشل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کمیٹی نے وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمن سے کہا کہ وہ ایسے واقعات کی تفصیل معلوم کر کے کمیٹی کو اس بارے میں آگاہ کریں۔
شاہی سید نے کہا کہ کمیٹی کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ خواتین قیدیوں کی نگرانی کے لیے خواتین جیل سپرنٹنڈنٹ تعینات کی جائیں اور جہاں مردوں اور خواتین کی جیلیں الگ الگ نہیں وہاں خواتین اور مرد قیدیوں کی بیرکیں ایک دوسرے سے فاصلے پر بنائی جائیں۔
پاکستان میں خواتین کے لیے مخصوص جیلوں کی تعداد محض تین ہے جب کہ ملک کی بقیہ لگ بھگ 90 جیلوں میں خواتین قیدیوں کے لیے الگ بیرکیں بنائی گئی ہیں۔