پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم دو بڑی تنظیموں نے سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات سے متعلق عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو ’’مایوس کن‘‘ قرار دیا ہے۔
جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) اور میڈیا کمیشن پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے واقعے کی تحقیقات کرنے والا اعلیٰ سطحی کمیشن قاتلوں کا تعین کرنے میں ناکام رہا۔
میڈیا کمیشن پاکستان کے صدر اور سینیئر صحافی ضیاالدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’رپورٹ بڑی مایوس کن ہے، اصل کام جو کرنا تھا کہ سیلم شہزاد قتل کس وجہ سے ہوا، کن لوگوں نے کیا، اس کے متعلق تو کچھ بھی پتہ نہیں چلا‘‘۔
سیفما کے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم نے بھی کہا کہ سلیم شہزاد کے قتل میں ملوث ذمہ داروں کے تعین میں ناکامی سے انھیں بھی مایوسی ہوئی ہے، لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ میں انٹیلی جینس ایجنسیوں کا کام کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی اور ان کے احتساب سے متعلق سفارشات قابل ستائش ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ رواں ماہ مکمل کر کے حکومت کو پیش کی تھی جسے بعد ازاں شائع کر دیا گیا۔
سلیم شہزاد کو گزشتہ مئی 2011ء میں اسلام آباد سے نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا تھا اور اس کے دو روز بعد ان کی تشدد زدہ لاش صوبہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کی ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔
صحافیوں کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں نے سلیم شہزاد کے قتل کی شدید مذمت کی اور پاکستان کی فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے احتجاج پر عدالتی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔
کمیشن نے رپورٹ میں سلیم شہزاد کے اہلِ خانہ کی مالی معاونت کی سفارش بھی کی تھی۔
پاکستان گزشتہ دو سالوں سے مسلسل صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک تصور کیا جا رہا ہے، 2011ء میں مجموعی طور پر11 صحافی ہلاک ہوئے جب کہ درجنوں کو دھمکیوں اور تشدد کا سامنا رہا۔
رواں سال خیبر پختون خواہ میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے وائس آف امریکہ کے ایک صحافی مکرم خان عاطف کو ہلاک کر دیا تھا۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے قتل سے متعلق تحقیقات کا تسلی بخش نہ ہونا ملک میں صحافتی برادری کے خلاف جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔