طالبان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے پاکستان کے قبائلی صحافی مکرم خان عاطف کو بدھ کو شبقدر کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا اور نماز جنازہ میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔
صحافیوں اور اُن کی نمائندگی کرنے والی، ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس، خیبر یونین آف جرنلسٹس اور پشاور پریس کلب کے علاوہ جنوبی ایشیاکے ملکوں کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم، سیفما، کے رہنما بھی جنازے میں موجود تھے۔
لیکن صوبائی یا وفاقی حکومت کے کسی نمائندے نے نمازجنازہ میں شرکت نہیں کی باوجود اس کےکہ یہ علاقہ حکمران عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کا مضبوط گڑھ مانا جاتا ہے۔
مکرم خان عاطف کی تدفین کے بعد شبقدر اور مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جس میں اُن کے قاتلوں کو گرفتار کر کےکیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا۔
مقتول صحافی کا تعلق مہمند ایجنسی سے تھا اور وہ وائس آف امریکہ کی پشتو سروس ’ ڈیوہ‘ کے علاوہ پاکستان کے نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ سے بھی منسلک تھے۔
مکرم خان عاطف منگل کی شام شبقدر میں اپنے گھر کے قریب ایک مسجد میں مغرب کی نماز ادا کررہے تھے جب موٹر سائیکل پر سوار دو افراد وہاں پہنچے اور ان میں سے ایک نے دوران نماز قبائلی صحافی پر فائرنگ کردی جو ان کی ہلاکت کا باعث بنی۔
مہمند ایجنسی کے آبائی علاقے میں طالبان کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد مقتول صحافی اپنے خاندان کے ساتھ شبقدر میں رہائش پذیر تھے۔
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بھی مکرم خان عاطف کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کے پسماندگان اور احباب سے افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
’’ہم اُن کے اپنے پیشے کے اعلیٰ ترین اصولوں کی خاطر سچائی کی تلاش میں کہیں بھی جانے کے عزم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم اس جرم کے مرتکب افراد کی شناخت اور اُنھیں قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے مکمل اور شفاف تحقیقات پر زور دیتے ہیں۔‘‘
دریں اثناء پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی اپنے ایک بیان میں صحافی مکرم خان عاطف کے قتل کی مذمت کی ہے اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود ملک بھر میں صحافیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
’’صحافیوں کا حکومت پر یہ الزام کہ وہ انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے، اس صورتحال میں بلاجواز نہیں ہے کہ حکومت اپنے دوراقتدار میں متعدد صحافیوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں سے کسی ایک صحافی کے قاتلوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لاسکی۔‘‘
اُدھر مکرم خان کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں صحافیوں نے بدھ کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں سے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔