اسلام آباد —
صحافیوں کو درپیش خطرات سے متعلق قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے حکومت کو سفارش کی ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے خصوصی قانون بنائے۔
کمیٹی کے چیئر مین احس اقبال نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس قانون کے نفاذ سے ذرائع ابلاغ کو مختلف ریاستی اداروں اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ہراساں کرنے کے واقعات میں کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی بیمہ پالسی کا اعلان بھی اشد ضروری ہے تاکہ کسی نا خوشگوار واقعے کی صورت میں متاثرہ صحافی کے خاندان کی کچھ مالی امداد ہو سکے۔
انہوں نے اس سلسلے میں میڈیا کے اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
’’حکومت و معاشرے سے پہلے صحافیوں کے اپنے ادارے (نجی ٹی وی چینلز، ریڈیو اور اخبارات) کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی سکیورٹی کے لیے ابنا حصہ ڈالیں۔ ان کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ منافع کمائیں۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے میڈیا کے شعبے میں بہتر نمایاں تبدیلی دیکھی گئی ہے جہاں کئی نیوز کے نجی ٹی وی چینلز سامنے آئیں ہیں وہیں صحافی قدرے آزادی سے مختلف امور اور ان اداروں کی کارکردگی پر سوالات اپنی رپورٹس میں اٹھاتے ہیں جنہیں اس سے پہلے ’’مقدس گائے‘‘ کے طور پر جانا جاتا تھا۔
مگر اسی دوران صحافیوں کو ہراساں اور قتل کرنے کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک بھی قرار دیا گیا ہے۔
صحافیوں کی ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012ء میں صحافیوں کے لیے سب سے مہلک ممالک میں پاکستان کا نمبر اب بہتر ہو کے تیسرا ہوا لیکن مجموعی طور پر یہاں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی۔ رواں سال پاکستان اب تک سات صحافی مختلف پر تشدد واقعات میں اپنی جاں گنوا بیٹھے ہیں۔ سب سے زیادہ صحافیوں کی ہلاکتیں شام اور سومالیہ میں ہوئیں جو کہ بالترتیب 28 اور 12ہے۔
پاکستانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں تحفظ فراہم کرنا بظاہر حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں اسی لیے ان کو ہراساں کرنے یا ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے واقعات کی تحقیقات ہمیشہ ادھوری رہ جاتی ہیں۔
نجی ٹی وی چینل کے ایڈیٹر مبشر زیدی کہتے ہیں کہ صحافی برادری کو خطرات حکومتی، خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ شدت پسندوں سے بھی ہے جو اب میڈیا کو بھی اپنا ’’دشمن‘‘ گردانتے ہیں۔
حکام ’’یہ تو بتاتے ہیں کہ طالبان نے صحافیوں کی فہرستیں بنائی ہیں لیکن جب سکیورٹی کی باری آتی ہے تو چند بڑے نجی ٹی وی چینلز کے لیے پروگرام کرنے والے میزبانوں کے علاوہ بالخصوص قبائلی علاقوں، کوئٹہ اور خیبر پختونخواہ میں صحافیوں کے لیے کچھ نہیں کرتے۔‘‘
2005ء میں جنوبی وزیرستان میں ہلاک ہونے والے صحافی اللہ نور کے نوجوان بھتیجے امجد خان وزیر نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں اپنے چچا کے قتل کی تحقیقات یا اس کے نتائج کا کچھ علم نہیں۔
’’ہمیں اب تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اسے (اللہ نور) کو کس نے قتل کیا۔۔۔بس ایک دن اس کی لاش ملی۔ پتہ نہیں کس نے مارا؟ کیوں مارا؟۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اللہ نور کے خاندان کی مدد کے لیے جو وعدے کیے گئے تھے وہ بھی پورے نہیں کیے گئے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے پیش نظر سکیورٹی کے خطرات کے باوجود صحافی ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات لیے جاتے رہے ہیں۔
کمیٹی کے چیئر مین احس اقبال نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس قانون کے نفاذ سے ذرائع ابلاغ کو مختلف ریاستی اداروں اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ہراساں کرنے کے واقعات میں کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی بیمہ پالسی کا اعلان بھی اشد ضروری ہے تاکہ کسی نا خوشگوار واقعے کی صورت میں متاثرہ صحافی کے خاندان کی کچھ مالی امداد ہو سکے۔
انہوں نے اس سلسلے میں میڈیا کے اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
’’حکومت و معاشرے سے پہلے صحافیوں کے اپنے ادارے (نجی ٹی وی چینلز، ریڈیو اور اخبارات) کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی سکیورٹی کے لیے ابنا حصہ ڈالیں۔ ان کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ منافع کمائیں۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے میڈیا کے شعبے میں بہتر نمایاں تبدیلی دیکھی گئی ہے جہاں کئی نیوز کے نجی ٹی وی چینلز سامنے آئیں ہیں وہیں صحافی قدرے آزادی سے مختلف امور اور ان اداروں کی کارکردگی پر سوالات اپنی رپورٹس میں اٹھاتے ہیں جنہیں اس سے پہلے ’’مقدس گائے‘‘ کے طور پر جانا جاتا تھا۔
مگر اسی دوران صحافیوں کو ہراساں اور قتل کرنے کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک بھی قرار دیا گیا ہے۔
صحافیوں کی ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012ء میں صحافیوں کے لیے سب سے مہلک ممالک میں پاکستان کا نمبر اب بہتر ہو کے تیسرا ہوا لیکن مجموعی طور پر یہاں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی۔ رواں سال پاکستان اب تک سات صحافی مختلف پر تشدد واقعات میں اپنی جاں گنوا بیٹھے ہیں۔ سب سے زیادہ صحافیوں کی ہلاکتیں شام اور سومالیہ میں ہوئیں جو کہ بالترتیب 28 اور 12ہے۔
پاکستانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں تحفظ فراہم کرنا بظاہر حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں اسی لیے ان کو ہراساں کرنے یا ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے واقعات کی تحقیقات ہمیشہ ادھوری رہ جاتی ہیں۔
نجی ٹی وی چینل کے ایڈیٹر مبشر زیدی کہتے ہیں کہ صحافی برادری کو خطرات حکومتی، خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ شدت پسندوں سے بھی ہے جو اب میڈیا کو بھی اپنا ’’دشمن‘‘ گردانتے ہیں۔
حکام ’’یہ تو بتاتے ہیں کہ طالبان نے صحافیوں کی فہرستیں بنائی ہیں لیکن جب سکیورٹی کی باری آتی ہے تو چند بڑے نجی ٹی وی چینلز کے لیے پروگرام کرنے والے میزبانوں کے علاوہ بالخصوص قبائلی علاقوں، کوئٹہ اور خیبر پختونخواہ میں صحافیوں کے لیے کچھ نہیں کرتے۔‘‘
2005ء میں جنوبی وزیرستان میں ہلاک ہونے والے صحافی اللہ نور کے نوجوان بھتیجے امجد خان وزیر نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں اپنے چچا کے قتل کی تحقیقات یا اس کے نتائج کا کچھ علم نہیں۔
’’ہمیں اب تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اسے (اللہ نور) کو کس نے قتل کیا۔۔۔بس ایک دن اس کی لاش ملی۔ پتہ نہیں کس نے مارا؟ کیوں مارا؟۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اللہ نور کے خاندان کی مدد کے لیے جو وعدے کیے گئے تھے وہ بھی پورے نہیں کیے گئے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے پیش نظر سکیورٹی کے خطرات کے باوجود صحافی ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات لیے جاتے رہے ہیں۔