رسائی کے لنکس

صحافی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے مطالبات


پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں درجنوں صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم ’پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ یعنی ’پی ایف یو جے‘ کے مطابق صدر افضل بٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں سال 2000 کے اوائل سے اب تک 115 صحافی پاکستان میں مارے جا چکے ہیں۔

اُن کہنا تھا کہ اگرچہ ان میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جو بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے لیکن زیادہ تر کو ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا۔

افضل بٹ کہتے ہیں کہ ملک میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی وجہ سے پاکستان میں ہلاک ہونے والے درجنوں صحافیوں میں سے صرف تین کے قاتلوں کو پکڑا گیا ہے جب کہ مارے گئے دیگر صحافیوں میں سے کسی کے قاتل کو تاحال گرفت میں نہیں لیا جا سکا ہے۔

اس صورت حال پر صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس،ثقافت اور تعلیم ’یونیسکو‘ کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو ایک خط لکھا گیا جس میں کہا گیا کہ حکومت 2006 سے 2016 کے درمیان پاکستان میں مارے جانے والے 55 صحافیوں کی عدالتی تحقیقاتی سے متعلق معلومات سے آگاہ کرے۔

یونیسکو کی طرف سے پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ آن میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

پاکستان میں ’یونیسکو‘ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ خط ’یونیسکو‘ کے ہیڈ کوارٹر سے لکھا گیا تھا اور اس بارے میں تاحال جواب کا انتظار ہے۔

’پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ کے مطابق صدر افضل بٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس سے قبل صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ یعنی ’سی پی جے‘ بھی حکومت پاکستان سے اسی طرح کا مطالبہ کر چکی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب تک جو صحافی مارے گئے ہیں ’’اُن میں سے کسی کا جائیدار تنازع نہیں تھا، کسی کا خاندانی تنازع نہیں تھا، وہ خبر دینے کی پاداش میں مارے گئے۔‘‘

افضل بٹ کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کو چاہیئے کہ خصوصی ٹربیونل قائم کیے جائیں تاکہ اُن لوگوں کے مقدمات پایا تکمیل تک پہنچیں اور قاتلوں کو سزائیں ہو سکیں۔‘‘

حکومت میں شامل عہدیدار بشمول وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کہہ چکی ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ و فلاح و بہبود کے علاوہ ایسی قانون سازی کی جا رہی ہے جس کے تحت صحافیوں کے قتل یا اُن پر حملوں کے مقدمات کی پیروی کرنا بھی شامل ہو گا۔

وزیراعظم نواز شریف کے ترجمان ڈاکٹر مصدق کا کہنا ہے کہ حکومت از خود بھی صحافیوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور صحافیوں کی تنظیموں کی مشاورت سے اس بارے میں ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG