پاکستانی کے ساحلی شہر کراچی میں پولیس کے ایک سینیئر افسر چودھری اسلم پر خودکش بم حملے کا مقدمہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ اور ترجمان شاہد اللہ شاہد کے خلاف درج کر لیا گیا۔
گزشتہ جمعرات کی شام سندھ پولیس کے شعبہ کرائمز انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ چودھری اسلم کے قافلے کو کراچی میں عیسی نگری کے قریب خودکش بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ اپنے محافظ اور ڈرائیور سمیت ہلاک ہوگئے تھے۔
تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ہفتہ کو اس واقعے کا مقدمہ پی آئی بی کالونی کے تھانے میں انسپکٹر ملک عادل کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت دیگر دفعات شامل کی گئیں۔
چودھری اسلم پر ہلاکت خیز حملے کی تحقیقات جاری ہیں اور پولیس نے اس بارے میں اہم شواہد جمع کیے جب کہ حکام کے مطابق جائے وقوع سے ملنے والے ایک ہاتھ کی انگلیوں کے نشان سے مبینہ خودکش بمبار نعیم اللہ کو شناخت کیا اور اس کے گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے دو افراد کو گرفتار کیا۔
نعیم اللہ کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے بتایا جاتا ہے اور حکام کے بقول تفتیش میں معلوم ہوا کہ یہ مبینہ حملہ آور واقعے سے تین روز قبل ہی سے گھر سے غائب تھا اور اس کا موبائیل فون بھی بند رہا۔
قبل ازیں پولیس کے ایک سینیئر عہدیدار نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا لیکن چودھری اسلم کو طالبان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں ملتی رہی ہیں اور اس واقعے سے چند روز قبول طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد سے فون پر ان کی تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔
چودھری اسلم کو جمعہ کی سہ پہر کراچی میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس واقعے کی پاکستان میں سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے مذمت کرتے ہوئے چودھری اسلم کو خراج عقیدت پیش بھی پیش کیا گیا۔
پولیس کے اس افسر نے حالیہ برسوں میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف متعدد کامیاب کارروائیاں کی تھیں جس پر شدت پسندوں کی طرف سے چار بار قاتلانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جمعرات کو ہونے والا خودکش حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔
گزشتہ جمعرات کی شام سندھ پولیس کے شعبہ کرائمز انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ چودھری اسلم کے قافلے کو کراچی میں عیسی نگری کے قریب خودکش بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ اپنے محافظ اور ڈرائیور سمیت ہلاک ہوگئے تھے۔
تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ہفتہ کو اس واقعے کا مقدمہ پی آئی بی کالونی کے تھانے میں انسپکٹر ملک عادل کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت دیگر دفعات شامل کی گئیں۔
چودھری اسلم پر ہلاکت خیز حملے کی تحقیقات جاری ہیں اور پولیس نے اس بارے میں اہم شواہد جمع کیے جب کہ حکام کے مطابق جائے وقوع سے ملنے والے ایک ہاتھ کی انگلیوں کے نشان سے مبینہ خودکش بمبار نعیم اللہ کو شناخت کیا اور اس کے گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے دو افراد کو گرفتار کیا۔
نعیم اللہ کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے بتایا جاتا ہے اور حکام کے بقول تفتیش میں معلوم ہوا کہ یہ مبینہ حملہ آور واقعے سے تین روز قبل ہی سے گھر سے غائب تھا اور اس کا موبائیل فون بھی بند رہا۔
قبل ازیں پولیس کے ایک سینیئر عہدیدار نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا لیکن چودھری اسلم کو طالبان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں ملتی رہی ہیں اور اس واقعے سے چند روز قبول طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد سے فون پر ان کی تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔
چودھری اسلم کو جمعہ کی سہ پہر کراچی میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس واقعے کی پاکستان میں سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے مذمت کرتے ہوئے چودھری اسلم کو خراج عقیدت پیش بھی پیش کیا گیا۔
پولیس کے اس افسر نے حالیہ برسوں میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف متعدد کامیاب کارروائیاں کی تھیں جس پر شدت پسندوں کی طرف سے چار بار قاتلانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جمعرات کو ہونے والا خودکش حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔